شاعر: صابر ظفر
اپنی جلوت ہے الگ ، گوشہ نشینی ہے الگ
عیش- دنیا کی طرح لذت – دینی ہے الگ
اس طرف آو گے تو دل کے قریب آو گے
بد گمانی نہ کرو ، بات یقینی ہے الگ
کچھ نہ چھوڑا مرے جینے کے لیے ظالم نے
یار چھینا ہے الگ ، زندگی چھینی ہے الگ
مرگ اور زیست کے دونوں ہی نشے ہیں لازم
زہر پینا ہے الگ ، مے مجھے پینی ہے الگ
ڈھانپتا رہتا ہوں عریانی کو عریانی سے
اور پوشاک- دریدہ مجھے سینی ہے الگ
بات کس کس کی خدائ کی ظفر کی جاے
آسمانی ہے الگ اور زمینی ہے الگ