مقصود علی شاہ
عطا کا دستِ یقیں تھا کمال کی جانب
ابھی گماں بھی نہیں تھا سوال کی جانب
سمیٹ لے گی وہ کربِ دروں کی پہنائی
نگاہِ ناز کہ ہے میرے حال کی جانب
سحر اُجال کے رکھے گا شب ہتھیلی پر
چلا ہے مہر ترے خدّ و خال کی جانب
ہمیں نوازا ہے تیرے کرم کی بارش نے
سفر ہمارا نہ ہو گا زوال کی جانب
نئی نمود میں چمکیں گے حُسن زادِ فلک
کہ تیرے ابرو ہُوئے ہیں ہِلال کی جانب
بلال دیکھتے ہوں گے جو تجھ کو وقتِ اذاں
عروج دیکھتا ہو گا بلال کی جانب
وہ جس کو تیری عطا نے کیا غنا پرور
بڑھائے ہاتھ وہ کیسے نوال کی جانب
ترے کرم نے بنایا اُنہیں نجومِ ہُدیٰ
بڑھے ہُوئے تھے قدم جن کے ضال کی جانب
مِلے ہیں زیست کو جس سے نئے اصولِ شرف
زمانے ہیں اُسی طلعت خصال کی جانب
جو سایہ چھُوتا نہیں ہے تمھارے پاؤں کو
خیال کیسے بڑھے پھر مثال کی جانب
بہ فیضِ نعتِ نبی یہ کرم ہُوا مقصود
سخن کا جام ہے تشنہ مقال کی جانب