مقصود علی شاہ
سدا بہ مائلِ رحمت ہے تیرا دستِ کرم
کریم ! تُو ہے تو ہم کو نہیں ہے کوئی بھی غم
کمال ربط سے جاری ہے زندگی کا سفر
عطا بہ سُوئے غریباں، طلب بہ سُوئے نِعَم
وہاں وہاں پہ دلِ ناصبور جھُکتا گیا
جہاں جہاں پہ ہُوا ہے گمانِ نقشِ قدم
ترا کرم ہو تو بن جائیں گے ثنا صورت
وگرنہ صوت میں ہمت نہ کوئی حرف میں دَم
بجُز حروفِ شکستہ کمال کچھ بھی نہ تھا
سو نعت لایا ہُوں آقا بہ طرزِ دیدۂ نَم
کہاں کہاں لیے پھِرتے یہ بے ثمر شب و روز
مدینہ زیست نہ ہوتا تو مر گئے تھے ہم
حضور آپ نے بخشی ہے نعت کی نسبت
حضور آپ نے رکھا ہُوا ہے میرا بھرم
حضور طرزِ حضوری سے مَیں کہاں واقف
اگرچہ دل بھی ہے لرزاں اور آنکھ بھی ہے خم
خُدا کا شُکر کہ تجھ سے ہیں مُلتجی آنکھیں
خُدا کا شُکر کہ تجھ کو پُکارتا ہے دلَم
جواز ان کو ہے معلوم اپنے ہونے کا
سو تیری نعت ہی لکھتے ہیں مرے حرف و قلم
مدینہ آئے ہیں جنت سے ہو ہی لیں مقصود
کہ متّصِل ہے مواجہ سے کوئے باغِ ارَم