ڈاکٹرمعین نظامی
ہر زبان جب دوسری زبانوں کے بعض الفاظ کو اپناتی ہے تو انھیں اپنے مقامی تہذیبی، لسانی اور سماجی سانچوں میں ڈھال کر اپنی قومیت عطا کرتی ہے۔ یہ اچھا اصول ہے اور اس کا منطقی جواز بھی ہے۔ اسے ہر طرح کے تحفّظات سے بالا تر ہو کر وسیع پیمانے پر تسلیم کیا جانا چاہیے اور ایسے الفاظ کو ان کی اصل زبانوں کے معیارات کے مطابق برتنے پر بے جا اصرار نہیں کرنا چاہیے۔ جن محتاط لوگوں کے لیے ایسے الفاظ قابلِ ہضم نہیں ہیں، وہ زیادہ سے زیادہ یہی کیا کریں کہ خود ان سے اجتناب کر لیا کریں۔
اردو کا بھی یہی معاملہ ہے۔ اردو میں بیسیوں ایسے عربی و فارسی الفاظ و تراکیب موجود ہیں جن کے بنیادی تلفّظ، محلِّ استعمال یا معانی میں تبدیلیاں واقع ہو چکی ہیں۔ زبان کے معیاری ماہرین انھیں نئی صورت میں سندِ قبولیت بھی دے چکے ہیں اور وہ برسوں سے اردو کے الفاظ و تراکیب بن کر رائج فصیح زبان کا جزو بنے ہوئے ہیں۔
مجھے کچھ عرصے سے اردو کے کئی اہم اخبارات، معتبر جرائد اور دیگر ذرائعِ ابلاغ میں سب سے بہترین، قابلِ گردن زدنی، مقتل گاہ اور مذبح خانہ جیسے الفاظ پڑھنے سننے کو مل رہے ہیں۔ ایسے الفاظ کی مقبولیت میں روز بہ روز اضافہ دکھائی دے رہا ہے۔ ان میں سے مقتل گاہ اور مذبح خانہ کے بارے میں تو مجھے علم ہے کہ یہ فارسی میں بھی قبول شدہ تھے اور ہیں اور غالباً اردو والے بھی انھیں نا درست نہیں کہتے لیکن مجھے تا حال یہ معلوم نہیں ہے کہ سب سے بہترین اور قابلِ گردن زدنی کے بارے میں ہمارے فقہاے زبان اور اولیاے بیان کی کیا رائے ہے۔