ديگر

تالیاں ، سیٹیاں،مشاعرے اور آپ کا شعری ذوق : سید کامی شاہ

سید کامی شاہ
سید کامی شاہ
پچھلے کچھ عرصے سے عوام الناس کی شعری بدذوقی کا رونا رویا جارہا ہے۔ پہلے کچھ لوگوں کا یہ ذاتی رنج تھا کہ شاعری کے نام پر کچھ لوگ تُک بندیاں کررہے ہیں اور المیہ یہ ہے کہ عامۃ الناس جن میں بڑی تعداد طلبا و طالبات کی ہے وہ اس شاعری کو نہ صرف حقیقی شاعری سمجھ کر داد و تحسین کے ڈونگرے برسا رہے ہیں بلکہ شعر پر تالیاں اور سیٹیاں بجا کر داد بھی دے رہے ہیں۔
اس پر ہمیں یوسفی صاحب یاد آگئے۔۔۔
فرماتے ہیں۔۔۔ مجھے اس بات پر قطعی حیرت نہیں ہوتی کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی خونی پیچش کا علاج تعویذ گنڈے سے کرتے ہیں بلکہ غصہ اس بات پر آتا ہے کہ وہ سچ مچ اچھے ہوجاتے ہیں۔،،
اب یہ سمجھ نہیں آتا کہ یار لوگوں کو غصہ کس بات پر ہے۔۔۔۔۔ نوجوان نسل کا شعری ذوق خراب ہونے پر، علی زریون کے۔۔۔۔۔ کس نے جینز کری ممنوع پر یا مشاعرے میں تالیاں اور سیٹیاں بجانے پر۔؟
فریحہ نقوی نے غالباً اسی دکھ پر کہا تھا۔۔۔
آہ اگر نہ بھر سکیں تو واہ سے کام لیجیے
شعر پہ سیٹیاں نہیں درد پہ تالیاں نہیں،،
اب اس منظرنامے میں ہمیں بادی النظر میں دو اعتراضات نظر آتے ہیں پہلا تو یہ کہ کچھ لوگ شاعری کے نام پر تُک بندی کر کے نوجوانوں کا شعری ذوق خراب کر رہے ہیں اور دوسرا اعتراض یہ نظر آتا ہے کہ شاعری کے نوجوان مداح مشاعروں میں تالیان اور سیٹیاں بجا کر داد دے رہے ہیں۔۔ یعنی جو مشاعرے کی روایات ہوا کرتی تھیں کہ شعر پر واہ واہ، سبحان اللہ، کیا کہنے یا مکرر ارشاد کا غلغلہ بلند ہوا کرتا تھا اب وہ نہیں رہا بلکہ میوزیکل کنسرٹس کی طرح لوگ شاعری پر تالیاں پیٹ رہے ہیں اور سیٹیاں بجا رہے ہیں جیسے سینما ہال میں آئٹم سانگ پر تماش بین سیٹیاں بجاتے ہیں۔
سینما میں فلم بینی کے دوران آئٹم سانگ پر تالیوں کے بجائے سیٹی بجانے کی ایک وجہ تو یہ بھی سمجھ میں آتی ہے کہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔ اور سیٹی بغیر ہاتھ کے بھی بجائی جاسکتی ہے۔۔۔
پرانے زمانے میں جب کبھی تہذیب نامی کوئی چیز سماج میں پائی جاتی تھی اس وقت مشاعرے میں تالی بجانے کا مطلب ہوٹنگ سے بھی بڑی کوئی چیز ہُوا کرتا تھا یعنی بے عزتی اور رسوائی سے بھی بڑی کوئی چیز کہ جناب ان کی تو رات مشاعرے میں تالی پِٹ گئی۔۔۔
تالیاں پیٹنا ہیجڑوں کا ہُنر ہے۔ وہ بات بے بات تالی پیٹ کر اپنی بات مکمل کیا کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک داد و تحسین کا مطلب بھی تالی پیٹنا ہے اور دوسروں کی ہرزہ سرائی کا مطلب بھی تالی پیٹنا ہی ہے۔۔ حتیٰ کہ وہ لعنت بھیجنے کا کام بھی تالی سے ہی لیا کرتے ہیں۔
بات ہورہی تھی نئی شاعری اور نئے منظر نامے کی۔۔۔۔۔
عوام کے شعری ذوق کی بدحالی کا رونا رونے والے بظاہر دو باتوں پر اعتراض کرتے نظر آتے ہیں ایک تو یہ کہ شاعری کے نام پر کچھ لوگ تُک بندیاں کررہے ہیں اور اردو ادب کی تہذیب و روایات سے نابلد انگریزی میڈیم کے پڑھے لکھے نوجوان سامعین مشاعروں میں تالیاں اور سیٹیاں بجا کر اس تُک بندی پر داد دے رہے ہیں۔۔۔۔۔
اگر اسی موقف پر ذرا غور کیا جائے تو اس کے اندر ایک اور اعتراض بھی چھپا نظر آتا ہے کہ شاعری کے نام پر تُک بندی کرنے والے نوجوان نسل کا شعری ذوق بھی خراب کررہے ہیں۔۔۔۔۔
چلیے۔۔۔ مان لیتے ہیں۔۔۔ کہ یہ سب ہورہا ہے تو بات اب یہ ہے کہ کیا یہ نوجوان شاعر ہی اس سارے معاملے کے ذمے دار ہیں۔؟
یا کوئی خرابی ہے جو برسوں سے کہیں چھپتی چھپاتی چلی آرہی تھی اور اب سوشل میڈیا کے دور میں آکر پوری طرح عیاں ہوگئی ہے؟
دبستان کراچی کے ایک شاندار شاعر اور ہمارے مرحوم دوست عزم بہزاد نے جب ایک نظم خرابی کے نام سے لکھی اور بتایا کہ سامنے نظر آنے والی خرابی اسی وقت کی پیداوار نہیں ہوتی جب وہ اجاگر ہوتی ہے بلکہ اس کے پیچھے برسوں کا تسلسل ہوتا ہے بس کسی خاص وقت میں آکر وہ آپ کے سامنے اپنا آپ پوری طرح عیاں کردیتی ہے اور لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ خرابی شاید لمحہ موجود میں پیدا ہوئی ہے۔۔۔
خرابی۔۔ (نظم، عزم بہزاد)
خرابی کا آغاز کب اور کہاں سے ہُوا
یہ بتانا ہے مشکل
کہاں زخم کھائے
کہاں سے ہوئے وار
یہ بھی دِکھانا ہے مشکل
کہاں ضبط کی دھوپ میں ہم بکھرتے گئے
اور کہاں تک کوئی صبر ہم نے سمیٹا
سنانا ہے مشکل
خرابی بہت سخت جاں ہے
ہمیں لگ رہا تھا یہ ہم سے الجھ کر کہیں مرچکی ہے
مگر اب جو دیکھا تو یہ شہر میں،
شہر کے ہر محلے میں، ہر ہر گلی میں،
دھوئیں کی طرح بھر چکی ہے
خرابی رویوں میں،
خوابوں میں، خواہش میں،
رشتوں میں گھر کرچکی ہے
خرابی تو لگتا ہے
خوں میں اثر کرچکی ہے
خرابی کا آغاز
جب بھی، جہاں سے ہُوا ہو
خرابی کے انجام سے غالباً
جاں چھڑانا ہے مشکل۔،،
تو اب جن لوگوں کو اس بات پر اعتراض ہے کہ نوجوانوں کا شعری ذوق خراب کیا جارہا ہے ان سے بندہ پوچھے کہ بھائی آپ نے نوجوانوں کے افزائشِ ذوق کے لیے کون سے گھوڑے دوڑائے تھے۔؟
یہ بدنظر بزرگ جو اب شور مچارہے ہیں انہوں نے پچھلے 50 سال سے ایک ہی نعرے کا دامن پکڑا ہوا کہ ادب رو بہ زوال ہے۔ ہمارے بال سفید ہوگئے، بچے بڑے ہوگئے جب سے ہم یہ نعرہ سُن رہے ہیں کہ جی اردو ادب روبہ زوال ہے، اردو میں کوئی اچھا ناول نہیں لکھا گیا، اردو والوں کو تنقید کی تمیز نہیں، اردو افسانہ بدحال ہے۔۔ جب ان سے پوچھاجائے کہ آپ نے آخری اردو ناول کب پڑھا تھا تو محترم اداس نسلیں اور آگ کا دریا سے آگے نہیں بڑھتے۔۔۔ جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ شاعری بھی ہورہی ہے، تنقید بھی لکھی جارہی ہے اور ناول بھی سامنے آرہے ہیں۔۔۔ اچھے برے کا فیصلہ وقت کرے گا۔۔۔
کون تاریخ میں زندہ رہتا ہے اور کون نہیں رہتا یہ طے کرنا ہمارا اور آپ کا کام نہیں ہے ہمیں اپنے کام پر دھیان دینا چاہیے۔
غالب ہی نے جیسے کہا
نہ ستائش کی تمنا، نہ صلے کی پروا
گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی نہ سہی۔،،
تو کون جانے غالب نے کس دکھ میں اور کس دل سے یہ بات کہی ہوگی۔۔ اُس وقت کس نے سوچا ہوگا کہ دو سو سال بعد غالب کا جشن منایا جارہا ہوگا اور جو لوگ غالب پر اعتراض کرتے ہیں ان کا کوئی نام لینے والا بھی نہیں ہوگا۔۔۔
اپنی نوجوان نسل کے شعری ذوق کی آبیاری کرنے کی ذمے داری پڑھنے والوں سے زیادہ پڑھانے والوں کی ہے مگر ایسے بہت سے لوگ ہیں جو مختلف تعلیمی اداروں میں پڑھاتے ہیں اور شاعر کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں مگر ان کی اپنی شاعری انتہائی بودی ہے تو وہ اپنے طلبا کا شعری ذوق کیا بلند کریں گے۔۔۔؟
ہم نے تو اس ملک کے سوائے ایک دو کے کسی سیاستدان کو وزن میں شعر پڑھتے نہیں دیکھا، تو عام طلبا و طالبات سے آپ کیا توقع رکھیں گے۔؟
اب تو سوشل میڈیا کی کرامت نے بے وزن اور بے بحر شاعروں کی بھی فین فالوونگ بنادی ہے اور بہت سے لوگ اس میں خوش بھی ہیں۔۔۔
ہمارا تو یہ ماننا ہے اور سَو باتوں کی ایک سیدھی بات بھی یہ ہے کہ جب اصل اور جینون لوگوں کا حق مارا جائے گا تو خدا آپ پر نا اہل لوگوں کو مسلط کردے گا یہ کائناتی اصول ہے اور اسے کوئی تبدیل نہیں کرسکتا۔۔۔۔
جہاں مشاعروں میں ایک طرف یہ اشعار ہوں
رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ
آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ
یا
کمالِ ضبط کو خود بھی تو آزمائوں گی
میں اپنے ہاتھ سے تیری دلہن سجائوں گی،،
اور دوسری طرف کوئی شاعر یہ اشعار پڑھے۔۔۔
اک روز میں بھی باغِ عدن کو نکل گیا
توڑی جو شاخِ رنگ فشاں ہاتھ جل گیا
دیوار و ستف و بام نئے لگ رہے ہیں سب
یہ شہر چند روز میں کتنا بدل گیا
مَیں سو رہا تھا اور مری خواب گاہ میں
اک اژدھا چراغ کی لو کو نگل گیا۔،،
تو ایمانداری سے بتائیں کہ لوگ کس پر داد دیں گے۔؟
ظاہر ہے پھر فراز اور پروین شاکر ہی مشہور ہوں گے اور ثروت حسین کو کوئی اگلے مشاعرے میں نہیں بلائے گا کیونکہ مشاعرے کے لوگوں کو نہ تو بام و ستف سمجھ میں آنے ہیں اور نہ شاخِ رنگ فشاں کا تلفظ ادا ہونا ہے۔۔۔ تو ثروت حسین جیسا شاندار شاعر اس مشاعرہ بازی کی سیاست کی نذر ہوجاتا ہے اور سطحی قسم کے شاعر نوجوان نسل کے نمائندہ بن کر سامنے آتے ہیں۔۔۔
مگر بقول ذیشان ساحل
شاعروں، مسخروں اور کرسیوں میں فرق ہونا چاہیے۔۔۔،،
علی زریون نے جب حلقہ اربابِ ذوق فیصل آباد کے اجلاس میں غزل پڑھتے ہوئے مصرع کہا۔۔۔
للہ الحمد علی عشق شُد است از دلِ من۔،،
تو کسی کے پلے نہیں پڑا۔۔۔۔
مگر جب وہ مشاعرے میں یہ پڑھتا ہے
کس نے جینز کری ممنوع
پہنو اچھی لگتی ہو،،
تو لڑکیاں بھی سیٹیاں اور تالیاں بجاتی نظر آئیں۔۔۔۔
یہ سلسلہ آج سے نہیں ہے بلکہ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔۔۔
جب غالب نے بادشاہ کے دربار میں مصرع پڑھا
کاو کاو سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ،،
تو محفل پر سناٹا چھایا رہا
غالب نے کہا حضور مصرع اٹھائیے
تو سامعین میں سے کسی نے کہا
ہم سے تو نہیں اٹھتا قلی بلوالیجیے۔۔۔۔،،
مشاعرے کے سامعین سے آپ کیا توقع رکھیں گے۔؟
اور منتظمین کو تو اپنے پیسے پورے کرنے ہیں انہیں شاعری سے کیا مطلب۔؟
کتنی آرٹ کونسلیں، ادبی انجمنیں اور تنظیمیں ایسی ہیں جن کے کرتا دھرتا کسی صورت شاعر ادیب نہیں ہیں اور اگر ہیں بھی تو انگلی کٹا کے شہیدوں میں شامل ہونے والی صورت ہے مگر لوگ ان کے آگے پیچھے پھرتے ہیں ان کی اچھی بری باتوں پر سر دھنتے ہیں کہ سب کی دال روٹی ایسے ہی انجمن ستائش باہمی سے چلتی ہے۔۔ ایسے میں کوئی جینون شخص جو اس قسم کی چاپلوسیاں کرنا جانتا ہی نہیں وہ بے چارہ کیا کرے گا۔۔۔
سو رہا تھا کسی شبستاں میں
گر پڑی مجھ پہ رنگ کی دیوار۔،،

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

ادب ديگر

اعزاز

  • اگست 8, 2019
از : سنیہ منان ایوان صدر مہمانوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔یوم آزادی کی آمد آمد تھی ۔ حکومتی
ادب ديگر

حضرت شاہ نعمت اللہ ولی کرمانی کی پیش گوئیاں

  • اگست 9, 2019
 از:  ڈاکٹرمعین نظامی (بشکریہ جناب ناصرمحموداعوان)                 حضرت شاہ نعمت اللہ ولی کرمانی(