اقتدارجاوید
اس سوال کا بڑا سیدھا سادا جواب ہے جی اور جی بھر کر دھول جھونکی۔مگر آج کوٸی یہ بات ماننے کو تیار نہیں۔ماننے کی کیا بات ہے ہم تو یہ بھی نہیں مانتے کہ کسی سیاستدان نے ملک کو نقصان پہنچایا ہے۔جب آپ کسی سیاستدان کا نام لیں گے تو اس کےحواری پنجے جھاڑ کر آپ کے پیچھے پڑ جاٸیں گے۔خواہ ملک کا بیڑا ان کی آنکھوں سامنے غرق ہوا ہو یا ہو رہا ہو۔ ہر کوٸی اپنے مفاد اور تعصب کا اسیر اور نگہبان ہے اور اپنے موقف کے لٸے ہزاروں عذر بہانے بھی تراش کر رکھتا ہے۔کچھ یہی صورتِ حال ہمارے اردو ادب سے متعلق شخصیات کی بھی ہے۔
کچھ ماہ پہلے ہی ہمیں اس عمر میں طالب علم بننے کا شوق چرایا اور ہم نے پاکستان کی عظیم اور قدیم ترین ادارے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں فارسی گفتاری و نوشتاری میں داخلہ لے لیا۔یہ گفتاری بولنے اور نوشتاری لکھنے کے مترادف ہے۔یعنی یہ کورس فارسی زبان کے سیکھنے اور معمولی بول چال کی صلاحیت پیدا کرنے کے لیے شروع کیا گیا ہے۔فارسی زبان اور فارسی زبان کے عظیم شعرا سے تعارف تو بہت پہلے کا تھا مگر تھوڑی توجہ سے اب پڑھنا شروع کیا تو ہمیں دو کیفیتوں سے گزرنا پڑا یا تو ہماری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا یا دن میں ہی تارے نظر آنے لگے۔فارسی زبان تو شاید ہمارے ہاتھ نہیں لگی مگر فارسی اور فارسی متعلق کتب کا ایک ذخیرہ ضرور ہمارے ہاتھ لگ گیا۔ہم ٹھہرے غالب کے معتقد مگر کچھ کتب اور کتب کے مصنفین غالب کو کچھ اور ہی ثابت کرنے پر تلے ہوٸے تھے۔ہمارا ماتھا ٹھنکا کہ ضرور ہماری نظر کا دھوکا ہے کہاں غالب اور کہاں سرقہ۔کوٸی ایک آدھ لفظ یا ایک آدھ ترکیب تک معاملہ ہو تو آدمی کو زبان بند ہی رکھنی چاہیے مگریہاں تو خاکم بدہن آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔مان لیا کہ غالب نے کہہ دیا تھا کہ
طرزِ بیدل میں ریختہ لکھنا
اسداللہ خان قیامت ہے
مگر جو قیامت مرزا نوشہ نے ڈھاٸی اس پر تو ہم سر پکڑ کر بیٹھ گٸے۔میاں نوشہ تم نے تو اردو غزل کی کایا پلٹی تھی اور نیا آہنگ دیا تھا اسی پر قاٸم رہتے۔یہی بہت تھا تمہیں قیامت تک زندہ رکھنے کے لٸے۔ آخر اس تردّد کی کیا ضرورت تھی کہ ہم سے لوگ باگ بھی قلم لے کر چڑھ دوڑیں۔شاید اسی کو کوٸلوں کی دلالی میں منہ کالا کہتے ہوں گے۔بھٸی غالب صاحب تو اردو ادب کے جیتے جاگتے کردار ہیں اور لوگ ان کی بلاٸیں لیتے نہیں تھکتے اتنی محبت اور انسیت شاید ہی کسی شاعر کو نصیب ہوٸی ہو اتنے القاب۔اردو قاری ہو تو کوٸی مرزا نوشہ کوٸی نوشہ میاں کوٸی چچا غالب کہتا ہے اور دربارِ شاہی تو نجم الدولہ بہادر نظام جنگ اور دبیرالملک۔ اور چچا جی نے اس محبت کا جواب کیسی ہوشیاری سے دیا ہے کہ اب انہیں اسداللہ خان ہی کہنے کو دل کرتا ہے۔حیرت ہے کہ حالی اور بہت سوں کی نظر اسطرف گٸی بھی مگر وہ اور دوسرے بھی صاف صرفِ نظر کر گٸے۔
جس عظیم شاعر پر چچا غالب نے ہاتھ صاف کیا ہے ان کی بدقسمتی کہیے یا ہمارے چچا غالب کی کہ وہ اردو دان طبقے میں متعارف ہی نہیں ہوٸے۔وہ عبدالقادر بیدل ہیں۔اوراس پر ستم یہ کہ ان کے کلام کا اردو زبان میں ترجمہ بھی نہیں ہوا۔اکاّ دکاّ اگر کوٸی کوشش ہوٸی ہے تو اس میں چچا کے سرقے کا ذکر نہیں ہوا وہ اس لیے کہ وہ کتب بیدل کے کلام سے متعلق ہیں اور بیدل کے کلام کا اگر موازنہ ہوا بھی ہے تو سبک عراقی اور سبک عرب سبک خراسانی کے شعرا سے ہوا ہے۔البتہ ایک سبک بازگشت ہے چچا کے کلام کا مطالعہ اس سبک کو سامنے رکھ کر کیا جانا چاہیے۔
نوشہ میاں شاعر بڑے ہیں یا سرقہ باز اس بات کا فیصلہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن اس سے زیادہ نوشہ میاں کا نفسیاتی مطالعہ ضروری ہے۔ہمارے خطہِ پنجاب سے کسی نے بیدل پر پوری طرح کام بھی نہیں کیا ہے بس ایک ڈاکٹر عبد الغنی ہیں جو جہلم میں استاد تھے اور 1965 میں ان کا انتقال ہوا۔ان کی کتاب فیض بیدل جسے مجلسِ ترقی ادب لاہور نے 1982 میں چھاپا تھا ایک بے ضرر سی کتاب ہے جس میں مصنف نے بیدل کے کلام کو مختلف عنوانات کے تحت دیکھا ہے مگر مجال ہے کہ ایک لفظ بھی چچا کی ‘سادگی اور پرکاری’ پر لکھا ہو۔ یہ کتاب بیدل فہمی کے لیے بھی اتنی ہی بے ضرر ہے جتنا خود جہلم اردو ادب کے لٸے بے ضرر ہے۔اس کتاب کے علاوہ بیدل شناسی پر خطہ پنجاب سے اگر کوٸی کام کیا ہے تو کم از کم ہمارے علم میں نہیں ہے۔چچا غالب کا کثیر شعری سرمایہ مشکوک ہے اور ہم کوشش کریں گے کہ اس پوسٹ میں نوشہ میاں کے ان مشہورِ زمانہ اشعار کا ماخذ پیش کرنے کی جسارت کریں۔یہ چچا کے مقام کو چھیڑنے کا محل نہیں ہے حقیقت شناسی کی ہلکی سی جھلک دکھانا ہی پہلی اور آخری غاٸت ہے کیونکہ ہمیں تو والدِ محترم نے بچپن میں ہی فقیر سہا کا نسخہ عنایت کر دیا تھا۔چند سال پیشتر ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے اردو بک فاٶنڈیشن کے زیر اہتمام جو کتاب شاٸع کی ہے جو بیدل کے ضخیم کلام کے محدود منظوم ترجمے پر مشتمل ہے بہرحال یہ کام اپنی حیثیت میں بہت وقیع سمجھا جانا چاہیے۔
آغاز میں ہی چچا کا یہ شعر نظر میں رکھیں
مبر گمان توارد یقین شناس کہ دزد
متاع من زنہان خانہ ازل بر خاست
اب اردو دان طبقہ ہماری اس جسارت پر بھی ہمیں معاف فرماٸے کہ اس شعر میں ہم نے زیر زبر پیش اور کامہ وغیرہ سے گریز کیا ہے کہ اب یہ جدید فاسی کا پہلا اصول ہے جس میں انہوں نے نون غنہ اور یاٸے معروف یعنی بڑی ے زیر زبر اور پیش کا خاتمہ بالخیر کر دیا ہے۔ نوشہ میاں فرما رہے ہیں کہ اگر میرے اشعار میں توارد نظر آٸے تو یقین کر لینا کہ چور ازل کے نہاں خانے سے میرے اشعار چرا لایا ہے۔ہم تو نوشہ میاں سخن فہم ہیں اور تمہارے کیا کسی کے بھی طرفدار نہیں سو ڈنکے کی چوٹ پر پوچھ رہے ہیں کہ یہ کیسا توارد ہے اور کیسا سرقہ ہے۔اگر ہم چاہیں تو یہاں نوشہ میاں کے بیسیوں اشعار کوٹ کر سکتے ہیں مگر مشتے از خروارے کے طور پر جو غالب کے معرکتہ الارا اشعار ہیں اور سرقہ کی عمدہ مثال ہیں پیش کرتے ہیں۔
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گٸیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گٸیں
غالب
خلقے بہ عدم دود دل و داغِ جگر برد
خاک ہمہ صرف گل و سنبل شدہ باشد
بیدل
ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا
نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا
غالب
یاد آزادیست گلزارِ اسیرانِ قفس
زندگی گر عشرتے دارد امید مردن است
بیدل
نہ تھا کچھ تو خداتھا کچھ نہ ہوتا توخدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
غالب
بہ ہستی تو امید است نیستی مارا
کہ گفتہ اند اگر ہیچ نیست اللہ است
بیدل
غالب برا نہ مان جو واعظ برا کہے
ایسا بھی ہے کوٸی جسے اچھا کہیں سبھی
غالب
سخت دشوارست منظورِ خلاٸق زیستن
با ہمہ زشتی اگر درپیشِ خود خوبم بس است
بیدل
ہم نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسد
سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا
غالب
سنگ ہم در کفِ اطفال نگیرد آرام
دورِ مجنوں چہ قدر سست نسق می باشد
بیدل
بے طلب دیں تو مزا اس میں سوا ملتا ہے
وہ گدا جس میں نہ ہو سوٸے خیال اچھا ہے
غالب
اے خوشا جود کہ از خجلت وضع ساٸل
لب بہ اظہار نیارند و بایما بخشند
بیدل
گنجینہ معنی کا طلسم اس کو سمجھیے
جو لفظ کہ غالب مرے اشعار میں آوے
غالب
گر اہل سخن بیدل سامان غنا خواہند
چوں نسخہ اشعارت گنجینہ نباشد
بیدل
صد جلوہ رو برو ہے جو مژگاں اٹھاٸیے
طاقت کہاں کہ دید کا احساں اٹھاٸیے
غالب
نگاہ شوق پیدا کن تماشا کن تماشا کن
دو عالم جلوہ است و بے بصر دشوار می بیند
بیدل
رحمت اگر قبول کرے کیا بعید ہے
شرمندگی سے عذر نہ کرنا گناہ کا
غالب
بہ کہ بہ پیش کریم ناز کنی وقتِ جرم
ورنہ زکم ہمتی است عذر گنہ خواستن
بیدل
ایسے اور درجنوں اشعار ہیں مگر چند مصرع جات پر بھی نظر کر لیجیے
رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
غالب
رنجہا در عالم ِ تسلیم راحت می شود
بیدل
خاموشی ہی سے نکلے ہے جو بات چاہیے
غالب
بیدل احیاٸے معانی بہ خموشی کردم
بیدل
نگاہِ بے محابا چاہتا ہوں
غالب
ہر چند نگاہِ تو حیاتِ دوجہان است
بیدل
میاں نوشہ آپ کے یہ اشعار پڑھ کر خود ہمیں شرمندگی محسوس ہو رہی ہے۔کاش گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور فارسی نوشتاری کا کورس شروع نہ کرتی اور ہم یونہی آپ کی محبت میں گرفتار رہتے۔
گمنام
اکتوبر 17, 2019کاش میں نے یہ پڑھا نہیں ہوتا