از: سیّد مجاور حسین رضوی
علامہ اقبال نے کہا تھا:
قوم گویا جسم ہے، افراد ہیں اعضاےقوم
منزلِ صنعت کے رہ پیما ہیں دست د پاےقوم
محفلِ نظمِ حکومت، چہرۂ زیباےقوم
شاعر ِرنگیں نوا ہے دیدہ بیناےقوم
مبتلاےدرد کوئی عضو ہو،روتی ہے آنکھ
کس قدر ہم درد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ
اردو کا شعری مزاج پہ رہا ہے کہ قوم کے تلوے میں کوئی کانٹا چبھا تو اس کی کھٹک اور چبھن شاعر نے اپنے دل میں محسوس کی۔اردو کا شاعر اس دیس کی مٹی سے کبھی بے نیاز نہیں۔ وہ جہاں کہیں سے آیا ہو ،جب ہندوستان کی سرزمین پر آ گیا تو پھر یہیں کا ہو کر رہ گیا۔ایک مکمل ہندوستانی بن کر۔
غالب کے دادا مرزا قوتان بیگ خاں ۱۷۵۴ء میں دہلی آئے۔۱۷۶۲ء میں شادی ہوئی۔ شاہ عالم کے توسط سے مغلیہ سلطنت کی وفاداری کی سند ملی۔ نجف خاں کے ساتھ رہے۔عبداللہ بیگ خاں ۱۷۶۵ء میں پیدا ہوئے اور ۲۷ دسمبر۱۷۹۷ء میں عبداللہ بیگ خاں کے یہاں جو لڑکا پیدا ہوا اس کا نام محمد اسد اللہ خاں بیگ رکھا گیا اور وہ تاریخ میں مرزا غالب کے نام سے معروف ہوا۔غالب ۱۸۱۰ء تک آگرہ میں رہے۔۱۹/اگست ۱۸۱۰ء کو دہلی میں آئے اور ۱۸۱۳ء سے مستقل سکونت اختیار کی۔
اس مختصر سی داستان میں کہیں تلخیاں نہیں ہیں۔پنشن ہے اور سسرال سے بھی معاشی فراغت کے سامان میسر ہیں۔ اس عہد کے رئیس زادوں کی طرح زندگی گذر رہی ہے۔ اخراجات زیادہ، آمدنی اس کے مطابق اور ہم آہنگ نہیں اس لیے کلکتہ کا سفر کیا۔ کامیابی نہ ہوئی قرض کے سلسلے میں ایک انگریز شراب فروش بیک فرسن کی نالش پر پکڑےگئے۔ نواب امیرالدین خاں نے پیسہ دے کر رہائی دلائی۔۱۸۴۱ء میں جوا کھیلنے کے جرم میں پکڑے گئے ۔جرمانہ ہوا، جو ادا ہوا۔۱۵نومبر۱۸۵۴ء ذوق کے انتقال کی تاریخ ہے، اس کے بعد غالب بہادر شاہ ظفر کے استاد ہوئے۔۱۱مئی ۱۸۵۷ء کو دہلی میں میرٹھ سے فوجیں آئیں اور ۱۹/ستمبر کو بہادر شاہ ظفر نے خود سپردگی کا اعلان کر کے لال قلعہ یعنی دہلی، یعنی ہندوستان کی مرکزیت انگریزوں کے حوالے کر دی۔
غالب کی دنیا بہت محدود ہے۔ انھوں نے بھرت پور، رام پور، کلیتاً دیکھا تھا۔ حیدرآباد کا نام جانتے تھے مگر کبھی دکن کی طرف نہیںگئے۔ دہلی آئے تو ان کی زندگی جامع مسجد، چاندنی چوک، لال قلعہ، جمنا کا پل اور دہلی کے کچھ گلی کوچوں تک رہی ،لیکن اس دائرہ میں انھیں زندگی رنگین بہار کی طرح نظر آتی رہی۔ اسی دہلی میں ،چا ہے پھول والوں کی سیر ہو، رقصِ ماہتابی ہو یا سازِ طرب کا نغمۂ دل کش ہو، وہ سب انھیں ملا تھا۔اچانک جب ۱۱مئی کو آزادی کے شعلے بھڑک اٹھے تو غالب نے خود کو اس آگ سے الگ رکھنے کی کوشش نہیں کی۔گوری شنکر اور جیون لال نے اپنے روزنامچوں میں اس سکے کا ذکر کیا ہے جو غالب نے کہہ کر دیا تھا اور غالب اس کی صفائی تو ضرور دیتے رہے مگر اس صفائی میں بھی ایک طرح کا اعتراف پوشیدہ تھا۔ لکھتے ہیں:
’’میں نے سکّہ کہا نہیں اگر کہا تو اپنی جان اور حرمت بچانے کو کہا،یہ گناہ نہیں اور اگر گناہ ہے بھی تو کیا ایسا سنگین کہ ملکہ معظمہ کا اشتہار بھی اس کو مٹا نہ سکے۔‘‘
غالب دربار میں بھی حاضری دیتے رہے اور اس حد تک معاملات سے با خبر تھے کہ حکم احسن اللہ پر حملے کے سلسلے میں لکھتے ہیں:
’’حکیم احسن اللہ خاں طرف دار اور بہی خواہ انگریزوں کا ہے۔ ان کے اور باغی سرغنوں کے مابین (نفاق) کی آگ بھڑکاتا(آخر) ایک دن وہ بدنیت (حکیم صاحب جیسے) مردِ فرزانہ کے قتل کی نیت سے ان کی حویلی پر چڑھ آئے۔عزت مآب (حکیم صاحب) چوںکہ اس وقت قلعے میں بادشاہ کی خدمت میں تھے ،اس گروہ کے چند شوریدہ سر قلعے پہونچے اور ان کو گھیر لیا۔ خداوندے بندۂ نگہدار نے بہ کمال مرحمت و کرم، خود کو ان پر ڈال دیا، تب اس نازک وقت میں ان کی جان بچی۔اگرچہ ان کی جان کو کوئی گزند نہ پہونچا لیکن یہ فتنۂ نارواجب تک ان کے خاندان کو برباد نہ کر چکا، نہ دبا۔ ان کا محل نگار خانۂ چین کی طرح خوش نما اور آراستہ تھا، (مفسدوں نے) لوٹ لیا اور محل کی چھت میں آگ لگا دی۔ ہر شہتیر اور ہر تختہ جو اس چھت میں انگوٹھی کے نگینے کی طرح جڑا ہوا تھا، خاکستر ہو کر ڈھیر ہو گیا ۔دیواریں دھوئیں سے سیاہ پڑ گئیں، جیسے محل خود اپنے نام ماتم میں سیاہ پوش ہو گیا ہو۔‘‘
لیکن اس طرح کی شورش سے قبل دہلی کی گلیاں آباد تھیں، کوچے چھلے پڑتے تھے۔اہلِ علم کی حویلیوں میں دیوان خانے علمی مباحث سے گونجتے رہتے تھے۔۱۱۹مدرسوں والی دہلی میں ایسی خانقاہیں اور درگاہیں تھیں جہاں پانچ سو سے زیادہ فقرا کو روز لنگر ملتا تھا۔دہلی فلکِ زمین ملائک جناب تھی، لاجواب تھی اور سوا سو برس کے عرصے میں کئی با ر لٹنے کے با وجود پھر جو ان و خوب صورت ہو گئی تھی اور اس کی آبادی۱۸۰۳ء میں دو لاکھ اور ۱۸۵۶ء میں تین لاکھ ہو گئی تھی۔اس پس منظر میں غالب سے حساس شاعر نے نہ صرف اس درد کو محسوس کیا بلکہ مولانا ابوالکلام آزاد کے لفظوں میں:
’’ممکن نہ تھا کہ مرزا غالب جیسے غم دوست شاعر نے یہ سب کچھ دیکھا ہو اور اس کے دل و جگر کے ٹکڑے ٹکڑے نہ ہو گئے ہوں۔‘‘
غالب نے دہلی کا اس طرح مرثیہ نہیں لکھا جس طرح شیخ سعدی نے دمشق کا مرثیہ لکھا، اس لیے کہ غالب کا مزاج مذاق اڑانے والا تھا۔ وہ اس کے قائل تھے کہ غم، حیات کے لیے ناگزیر ہے۔ بندِ غم کے بغیر زندگی بے معنی ہے۔ وہ آخری لمحے تک تابِ ستیزن رکھنے کے با وجود ہنستے ہی رہنا چاہتے تھے لیکن یہ ممکن نہ ہو سکا۔
ان کی کچھ تحریریں دیکھیے، کہیں بھی غم ذات نہیں ہے مگر غم کی یورشِ پیہم کا تذکرہ ضرور ہے۔پہلے تو بھائی کی موت کا تذکرہ سن لیجیے۔ لکھتے ہیں:
’’۱۹/اکتوبر کو یہی پیر کا دن، جس کا نام ہفتے کے دنوں کی فہرست سے کاٹ دینا چاہیے، ایک سانس میں آتش فشاں اژدہے کی طرح دنیا کو نگل گیا۔ اس دن کے پہلے پہر میں وہ افسردہ، ژولیدہ
مُو دربان، بھائ
ی کے مرنے کی خبر لایا۔کہتا تھا کہ وہ گرم رفتارِ راہِ فنا پانچ دن تک تیز بخار میں جلتا رہا اور رات کے وقت با رہ بجے توسنِ عمر کی اس تنگناے کواُڑا لے گیا۔آب آبچیں سے در گز ر، غسال اور گورکن کو نہ ڈھونڈ، سنگ و خشت کا نہ پوچھ ! چونے گارے کی بات نہ کر اور مجھے بتا کہ کیوں کر جاؤں، میت کو کہاں لے جاؤں؟ اور کس قبرستان میں سپردِ خاک کروں۔بڑھیا سے بڑھیا کپڑے سے لے کر گھٹیا کپڑے تک با زار میں کیاکچھ نہیں بکتا۔ ہندو یہ کر سکتے ہیں کہ مردے کو دریا پر لے جائیں اور پانی کے کنارے سپردِ آتش کر دیں۔مسلمانوں کی کیا مجال کہ دو تین ایک دوسرے کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملا کر کسی راستے سے گذر جائیں، کہاں کہ میت کو با ہر لے جائیں۔پڑوسیوں نے میری تنہائی پر رحم کیا اور سرانجامِ کار پر کمربستہ ہوئے۔پٹیالے کے سپاہیوں میں سے ایک کو آگے آگے اور میرے نوکروں میں سے دو کو اپنے ساتھ لے کر گئے۔ لپٹیا، ایک مسجد میں جو مکان کے پہلو میں تھی، زمین کھودی، مردے کو وہاں رکھا اور گھڑے کو مٹی سے پاٹ کر لوٹ آئے۔‘‘
یہاں صرف بھائی کی موت کا تذکرہ نہیں ہے کچھ زیریں لہریں ہیں اس پر غور کیجیے:
’’مسلمانوں کی کیا مجال کہ دو تین ایک دوسرے کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملا کر کسی راستے سے گذر جائیں۔‘‘
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دلی شہر میں ۱۹/اکتوبر کو یعنی سقوطِ دہلی کے تقریباً ایک مہینہ بعد مسلمانوں کی کیا حالت تھی۔ مسلمانوں کی حالت کے سلسلے میں ایک جگہ لکھا ہے کہ دلی شہر میں ایک ہزار مسلمان رہ گئے تھے۔ لکھتے ہیں:
’’اس شہر میں قید خانہ شہر سے با ہر ہے اور حوالات شہر کے اندر۔ ان دونوں جگہوں میں اس قدر آدمیوں کو جمع کر دیا گیا ہے کہ معلوم ہوتا ہے ایک دوسرے میں سمائے ہوئے ہیں ۔ان دونوں قید خانوں کے ان قیدیوں کی تعداد، جنھیں مختلف اوقات میں پھانسی دے دی گئی، مَلک الموت جانتا ہے ۔مسلمان شہر میں ایک ہزار سے زیادہ نہیں ملیں گے۔‘‘
۱۸۵۷ء کے بعد دلی کی بربادی کا تذکرہ مختصر الفاظ میں ہے اور مئی سے ستمبر تک دلی میں بدامنی کا تذکرہ زیادہ تفصیلی ہے لیکن اس میں اثر نہیں ہے بلکہ کہیں ہے تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی تاریخ نگار ایمان داری سے حالات کو درج کر رہا ہے۔باغیوں کے لیے لکھتے ہیں:
’’جہاں جہاں سے چلے ہیں، انھوں نے قید خانوں کے دروازے کھول دیے ہیں۔ پرانے پرانے قیدی، جنھیں نئی نئی آزادی ملی تھی، آئے، دیوانِ خاص میں بادشاہ کو سجدہ تعظیم کیا اور کسی علاقے کی صوبہ داری چاہی۔‘‘
غالب کے اس بیان سے ظہیر دہلوی کے بیان کی نفی ہوتی ہے :
’’باغی افواج دیوانِ خاص میں گھس آئے تھے اور ایک پوربیا دھوتی بندھی ہوئی سرپر ایک انگوچھا لپٹا ہوا بادشاہ کو سلام کر کے پاس چلا آیا۔ بادشاہ کا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگا: سنو بڑھؤ، ہم نے تمھیں بادشاہ کیا۔‘‘
البتہ ظہیر کی طرح غالب بھی بادشاہ کے وفادار ہیں۔ لکھتے ہیں:
’’بادشاہ کو فوجوں نے اپنے حلقہ میں لے لیا ۔یہ ایسا تھا جیسا چاند کو گہن لگ جاتا ہے۔‘‘
غالب نے با ضابطہ ان لوگوں کے نام لکھے ہیں جو بادشاہ کے پاس پا غائبانہ سجدۂ تعظیم بجا لائے۔ انھوں نے نواب رام پور کا نام خصوصیت سے حیرت کے ساتھ درج کیا ہے۔
غالب نے ۱۳/ستمبر کو اودھ کے ایلچی کا ذکر کیا ہے۔ دو سبک رفتار گھوڑے، دو کوہ پیکر ہاتھی، ایک سو اکیس اشرفیاں اور ایک زرّیں تاج انواع و اقسام کے نایاب موتیوں سے مرصّع نذر گزرانا اور ایک جوڑ بازو بند ہیرے جڑے ملکہ کے لیے محل میں پہنچائے۔غالب نے اس ایلچی کو سبز قدم کیا ہے، اس لیے کہ دوسرے ہی روز:
’’ستمبر کی ۱۴ تاریخ تھی۔ پہاڑی کے سایہ نشینوں نے اس دبدبہ کے ساتھ کشمیری دروازے پر یلغار کی کہ کالوں کی فوج کو بھاگے بغیر چارہ نہ رہا۔‘‘
اودھ کے ایلچی کو سبز قدم کہنے سے یہ تو معلوم ہی ہو جاتا ہے کہ غالب کی ہمدردیاں باغیوں کے ساتھ تھیں ،اس لیے کہ سبز قدم اس کو کہتے ہیں جس کی وجہ سے کام بگڑ جائے، یعنی جو کام تھا، وہ ٹھیک تھا۔ اب جو انگریزی فوج نے حملہ کیا تو جو کچھ کیا، وہ غالب کے مخصوص انداز میں دیکھیے:
’’غضب ناک شیروں نے جب سے شہر میں قدم رکھا ہے ،بے نواؤں کے قتل اور آتش زنی کو اپنے لیے روا رکھا ہے۔ جو علاقہ بزور جنگ لیا جائے ،وہاں کے لوگوں پر اسی طرح زندگی تنگ کر دی جاتی ہے۔ اس کھلم کھلا قہر و غضب اور بغض و خصومت کو دیکھ کر خوف سے سب کے چہروں کا رنگ اڑ گیا۔‘‘
غالب نے انگریزوں کو غضب ناک شیر ضرور کہا ہے لیکن یہ شیر بے نواؤں کے قاتل ہیں اور ان کے دل میں بغض بھرا ہوا ہے اور انھوں نے آتش زنی کو جائز کر لیا ہے۔ شہر کا کیا حال ہوا ہے؟ اس کے لیے خطوط سے جستہ جستہ اقتباسات ملاحظہ ہوں:
’’یہاں کا حال سن لیا کرتے ہو۔ اگر جیتے رہے اور ملنا نصیب ہوا تو کہا جائے گا ،ورنہ قصہ مختصر، قصہ تمام ہوا۔ لکھتے ہوئے ڈرتا ہوں۔‘‘
اس دور میں بھی مخبر، جاسوس اور سنسرشپ کی کوئی نہ کوئی شکل ضرور تھی۔ اگر مکمل طور سے انگریزوں کے ہوا خواہ ہوتے، یا تو واقعات کی چبھن کو محسوس ہی نہ کرتے، یہی سوچیے، غدار تھے،نمک حرام تھے، مارے گئے لیکن وہ تو ماتمِ شہرِ آرزو کرتے نظر آتے ہیں۔۲۶/دسمبر ۱۸۵۷ء کے ایک خط میں حکیم غلام نجف خاں کو لکھتے ہیں:
’’انصاف کرو، لکھوں تو کیا لکھوں، کچھ لکھ سکتا ہوں یا لکھنے کے قابل ہے۔بس اتنا ہی ہے کہ اب تک تم ہم جیتے ہیں، زیادہ اس سے نہ تم لکھو گے نہ میں لکھوں گا۔‘‘
اس سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ کس طرح زبان و قلم پر پہرے بیٹھے تھے۔ لکھنا بہت کچھ چاہتے تھے مگر کچھ لکھ نہ سکے۔البتہ کہیں کہیں صبر نہ کر
سکے اور لکھنے پر مجبور
ہو گئے۔ اس میں جان و مال و ناموس، مکان و مکیں، آسمان و زمیں، آثار و ہستی سراسر لٹ گئے۔
’’معزول بادشاہ کے ذکور میں جو بقیۃ السیف ہیں، وہ پانچ پانچ روپیہ مہینہ پاتے ہیں۔ اناث میں سے جو پیر زن ہیں، وہ کٹنیاں اور جوانین کسبیاں۔‘‘
ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’صورت ماہِ دو ہفتہ کی سی اور کپڑے میلے، پائچے لپر لپر، جوتی ٹوٹی۔‘‘
اور بیگماتِ قلعہ کا یہ حال ہے:
’’کسی بھی حسّاس دل کے لیے دو ماہ دو ہفتہ کو شہر کی سٹرکوں پر لپر لپر کرتے دیکھنا۔۔۔کرب میں اضافہ ہی کرنا تھا۔ ایک شخص جو ابھی کچھ دنوں پہلے تک دنیا کو با زیچۂ اطفال کہتا تھا(۱۸۵۷ء کی غزل) وہ اب شب و روز ایسے تماشے دیکھ رہا ہے جو کہ خود اپنی ذات بھی اس سے مبرّا نظر نہیں آتی ۔ایک دن تھا کہ چالیس پچاس ہزار کا قرض شانِ امارت سمجھا جاتا تھا اور ایک دن یہ ہے کہ آٹھ سو روپے کے قرض سے پریشان ہوکے ایسے شعر کہنے پڑ رہے ہیں۔‘‘
بادشاہ پر مقدمہ چل رہا تھا لکھتے ہیں :
’’اور یہ جو بادشاہ اور بادشاہ زادوں کا انجام، جسے فتحِ شہر کی داستان کا دیباچہ بننا چاہیے تھا، میں نے پہلے نہیں لکھا۔ اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ اس تحریر میں میرا سرمایہ بیان شدہ باتیں ہیں اور ناشنیدہ باتیں ابھی اور بہت باقی ہیں‘‘
یہاں نا شنیدہ کی ترکیب ہزار ہا کہانیاں کہہ جاتی ہے۔آگے چل کر لکھتے ہیں:
’’شہزادوں کے متعلق اس سے زیادہ نہیں کہا جا سکتا کہ کچھ بندوق کی گولیوں کا زخم کھا کر موت کے اژدھے کے منھ میں چلے گئے اور کچھ کی روح پھانسی کی رسی کے پھندے میں ٹھٹھر کر رہ گئی ۔کچھ قید خانوں میں ہیں اور کچھ آوارۂ روے زمیں، ضعیف و ناتواں۔ بادشاہ پر جو قلعے میں بند ہیں، مقدمہ چل رہا ہے۔‘‘
ایک خط میں لکھتے ہیں:
بوڑھا ہوا ہوں قابلِ خدمت نہیں اَسد
خیرات خوارِ محض ہوں نوکر نہیں ہوں میں
یہ حالات کا جبر تھا کہ انھیں رام پور میں ایسے اشعار کہنے پڑے ورنہ کہاں غالب اور کہاں نواب کی آستاں بوسی، مگر تعلقات اتنے بڑھ چکے تھے اور حالات اس قدر بگڑ چکے تھے کہ ۱۸۵۵۔۵۶ میں غالب نے جو خطوط لکھے تھے، وہ ضائع ہو گئے۔ ان کی ہدایت کے مطابق وہ سارے خطوط جلا دیے گئے۔
یہ کوئی ایسی با ت نہیں ہے کہ آج کے دور کا آدمی حیرت زدہ ہو۔ عام طور سے بیش تر ممالک میں بھی بلکہ خود ہندوستان میں بھی انقلابی تحریکیں ناکامی سے ہم کنار ہوئی ہیں، تو خطوط، دستاویزات یا اس طرح کے جتنے ثبوت ممکن تھے، انھیں نذر آتش کر دیا گیا۔ اور یہی ایک واقعہ ایسا ہے’’جو نیش خوار‘‘’’وظیفہ خوار‘‘ اور انگریزوں کے وفادار، مدّاح،مرزا اسد اللہ خاں اسد عرف غالب کے انقلابی مجاہد ہونے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
نواب رام پور نے غالب کی تحریر سے اثر قبول کر کے بہادر شاہ کو پیغام بھیجا، اور اس پیغام اخلاص میں اتنا زور تھا کہ غالب کو یہ سطریں لکھنی پڑیں :
’’نواب یوسف علی خاں بہادر فرماںرواےرام پور نے پیغام بھیج کر ہم چشموں کی زبان بند کی۔‘‘
ایسا ہے کہ نواب رام پور کی پوزیشن بھی بچانی تھی اس لیے پیغام سے پہلے رفتارِ محض ہے اور اس سے قبل نواب کی انگریز دوستی کا نہایت زور و شور۔ حال آںکہ نواب یوسف علی خاں کے دل میں مجاہدین کے لیے ضرور نرم گوشے تھے ورنہ وہ منیر، شکوہ آبادی کو حبسِ دوام کی اذیت سے رہا نہ کراتے اور انھیں کالے پانی سے نجات نہ دلواتے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان واقعات کے پس منظر میں کہیں نہ کہیں غالب موجود ہیں۔دستاویزی ثبوت جو بھی ہے، ہوں گے وہ تو کہہ رہے ہیں:
کریدتے ہو جو اَب راکھ جستجو کیا ہے ؟
لیکن اگر قرائن کی کوئی اہمیت ہے تو مرزا کا خطوط کو جلوانا ان کے مجاہد ہونے کا سب سے بڑا قرینہ معلوم ہوتا ہے۔
غالب ۱۸۵۷ء کے بعد با رہ سال تک زندہ رہے۔ ان کا بہترین کلام وہ ہے جو ۱۸۱۶ء سے ۱۸۳۳ء تک کے درمیان کہا گیا۔ ان کے قصائد ۱۸۵۲-۱۸۵۱ء تک کے ہیں۔۱۸۵۲ء میں عارف کے حادثہ نے انھیں ذہنی طور پر شکنِ بستر بنا دیا۔’’قادرنامہ‘‘۱۸۵۶ء کا ہے لیکن ۱۸۵۷ء کے بعد پہلا قطعہ یہی ہے جسے بہت نقل کیا گیا ہے۔ صرف چار شعر یہاں درج کیے جاتے ہیں:
بس کہ فعّال ما یرید ہے آج
ہر سلحشور انگلستاں کا
گھر سے با زار میں نکلتے ہوئے
زہرہ ہوتا ہے آب، انسان کا
چوک جس کو کہیں، وہ مقتل ہے
گھر بنا ہے نمونہ زنداں کا
شہرِ دہلی کا ذرّہ ذرہّ ٔخاک
تشنۂ خوں ہے ہر مسلماں کا
ان چار اشعار میں مرزا نے ۱۸۵۷ء کی پوری تاریخ لکھ دی ہے۔ بقیہ جو کچھ ہے، وہ کلامِ موزوں ہے۔ اس با رہ برس میں جو کچھ کہا گیا، ان میں ۹غزلیں ہیں ۔صرف ایک دو شعر غالب کے انداز کے ہیںورنہ بقیہ اشعار میں زندہ لاش متحرک نظر آتی ہے۔ تیرہ قطعے، ایک سہرا ،چار قصیدے، ایک مرثیہ، بیس رباعیات اور کچھ متفرق اشعار ملتے ہیں ،مگر ان میں وہ غالب نظر نہیں آتا کہ جس کی ہر بات میں سو پھول مہک اٹھتے تھے ۔اس میں اختلاف کی گنجایش ہے کہ انھوں نے اپنے عہد کی متصادم صداقتوں میں کسی ایک سے بھی نظریں نہیں چرائیں بلکہ دونوں کو ان کی پوری کشاکش کے ساتھ قبول کیا:
ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا میرے آگے
ذاتی خیال یہ ہے کہ وہ کسی کشاکش میں نہ تھے’’ایمان‘‘ ہی کے ساتھ جمے رہے۔ اس نئے دور پر نظر ڈالیے تو سر سید احمد خاں، مولانا حالی، ڈپٹی نذیر احمد اور پھر حضرت مولانا قاسم ،جنھوں نے شاملی کی لڑائی میں انگریزوں کو شکست بھی دی، یہ سب لوگ بعد میں سپرانداختہ ہو گئے تھے۔
غالب نے نغمہ عندلیب سنا تھا اور انھیں جب مرغ عیسیٰ کی حکم رانی نظر آئی اور وہ غالب، جس نے شانِ سیمرغ کی افسوں طرازی دیکھی تھی، اسے یہ کہنا پڑا تھا:
’’واہ رے بندر! یہ زیادتی شہر کے اندر‘‘
وہ اپنے دلی دنیا میں سناٹا دیکھتے رہے لیکن ۱۸۵۷ء کے بعد جدھر نظر اٹھاتے تھے ،ایسی ویرانی تھی کہ ’’دشت کو دیکھ کے گھر یاد‘‘ آتا تھا -۲۷ہزار آدمی مارے گئے تھے۔ زخمیوں کا شمار نہیں۔ جو عزت و ناموس بچا کر بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گئے تھے، ان کی گنتی نہیں۔
دلی مرد اسِ گمشدہ تھی ،جامع مسجد کے منارے اپنی اداسی دور کرنے کے لیے دست بہ دعا تھے۔ جمنا کے پانی میں آنسوئوں کی آب تھی، چاندنی چوک کا دیدہ بِنا چراغاں، تھا مگر ستونِ دار پر سروں کے چراغ روشن تھے۔
توضیحات
۱۔ غالب دلی سے متعلق بیانات ڈاکٹر اقتدار حسین صدیقی اور پروفیسر خلیق احمد نظامی کے مضامین مشمولہ تحقیقات سے مستعار ہیں۔
۲۔ غالب کا نثری بیان ان کے خطوط اور دستبنو(ترجمہ مخمور سعیدی، اردو دنیا)
۳۔ ڈاکٹر محمد سبطین کے مقالہ اردو ادب اور اٹھارہ سو ستاون سے بیشتر حصہ مستعار ہے۔
۴۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ کا بے نظر اور لاجواب مضمون،’’ غالب کا جذبۂ حب الوطنی اور ۱۸۵۷ء‘‘ اس مضمون کا محرک ہے۔
۵۔ غالب کے اشعار کے سنہ واری ترتیب’’دیوان غالب کامل‘‘ نسخہ گپتا رضا سے ہے۔