تنقید

جدیدیت کا نسب نامہ اور لیاقت علی عاصم کی شاعری


از: توقیرعباس
طے شدہ بات ہے کہ ادبی اصطلاحات اب ثقافتی تصورات اور نظریات سے جڑی ہوئی ہیں۔مختلف لو گوں کے ہاتھوں سے رومانویت ، جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے تناظر اور خدو خال بدلتے رہتے ہیں۔ یہ ضروری بھی ہے کیوںکہ اسی سے کامیاب ثقافتی ادوار کا تقابل اور بہت حد تک ایک جامع تعریف ممکن ہو سکتی ہے ۔ یہ اصطلاحیں اپنے اندر غیر مستحکم اور تضاد و عدم تضادکی حامل ہیں ۔ اسی وجہ سے عہد کے اہم معاملات کو نشان زد کرنے اور ان اصطلاحوں سے اخذو اخفا کرنے میں معاونت ملتی ہے ۔
جدیدیت پہلی دو عالمگیر جنگوں کے درمیانی دور سے عبارت ہے جس میں اس کے بہت واضح ، غیر مستحکم لیکن بہت پیچیدہ رشتے رومانویت سے بنتے ہیں ۔ رومانویت انیسویں صدی کے غالب جمالیاتی رجحان اور ثقافتی تصور سے عبارت تھی ۔ رومانویت کا ارتقا روشن خیالی کے دور میں عقلیت پسندی کی موافقت اور اس کی مخالفت سے بھی ہوا۔ رومانویت نے دماغ اور مادے، فاعل اور مفعول ، طبیعیات اور ما بعدالطبیعیات کے درمیان تشکیک کے سایے اور بھی گہرے کر دیے۔اردو ادب کی رسائی ان نظریات تک جزوی طور پر ہوئی اور ثقافتی سطح پر ان کو قبولیت نہ مل سکی۔ جن خطوں میں مسلط کردہ جامد نظریے کی پیرو ی ہو ،وہاں کسی بھی علمی و ادبی تحریک کی کامیابی مشکوک رہتی ہے۔ ایسے خطے میں عالمی طاقتوں کے نمائندے مسلسل ایسے حالات پیدا کرتے رہتے ہیں جس سے عوام اپنے مطالبات سے بھی دست بردار رہتے ہیںاور کسی علمی تحریک کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے ۔ ایسے معاملات میں الجھائے جاتے ہیں جن کا ان کی زندگی سے کوئی خاص تعلق بھی نہیں ہوتا ہے ۔ لہذا خالص علمی معاملات مسئلہ ہی نہیں بنتے اور تحریکوں کا وہاں پیدا ہونا مشکل ہوا کرتا ہے ۔اگر کوئی ناقد کسی ایسی تحریک یا علمی مسئلے کا تعارف کروا بھی دے تو لوگ چھان پھٹک کر اس کا صرف اتنا جزو اپناتے ہیں جو ان کی روایت اور افکار سے قریب ہو۔ اس کی سب سے عمدہ مثال اشتراکی ہیں جو اشتراکی کہلوانے کے بجائے ’’ ترقی پسند مصنفین‘‘ سے متصف ہوئے ۔
کالونیل ازم کے زیرِ سایہ تجدد پرستی کی تحریک نے ادب میں ضرور کچھ ہلچل پیدا کی ۔ جس سے نئے شعری امکانات پیدا ہوئے اور اردو ادب میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ نظم نے اپنا روپ تبدیل کیا اور نت نئی ہیئتوں میں جلوہ گر ہونے لگی ۔ غزل کے ساتھ مسئلہ ہیئت کا رہا جسے وہ بدل نہیں سکتی تھی لیکن اس نے اپنے باطن میں تبدیلی ضرور پیدا کی۔ جس سے اس کا دامن کشادہ ہو گیا اور نئے مضامین، خیالات اور افکار کو جگہ ملی۔ اب غزل وہ نہیں تھی جو سکہ بند مضامین تشبیہات اور استعاروں کا مرکزہوا کرتی تھی۔ یہ نئی غزل تھی جس کی آبیاری میں کئی لوگوں کا لہو اور رتجگے شامل تھے۔اس غزل کو اپنی شہ رگِ حیات کا لہو نذر کرنے والوں میں ایک اہم نام لیا قت علی عاصم کا بھی ہے ۔
قیامِ پاکستان سے پہلے ،لاہور ادب کا ایک مرکز تھالیکن پاکستان کے قیام کے بعد کراچی بھی ادب کا اہم مرکز بن گیا ، کراچی کی ادبی تاریخ میں دیگر شعرا کے ساتھ لیاقت علی عاصم کا نام انمٹ اور اہم ہے ۔ لیاقت علی عاصم بنیادی طور پر غزل گو شاعر ہے ۔ اس کی غزل کوکسی بھی ایک نظریے کی کسوٹی پر نہیں پرکھا جا سکتا لیکن روشن دماغ اور زرخیز طبیعت نے ،وہ تمام عناصر جذب کر لیے ہیں جو جدیدیت اور ما بعد جدیدیت کی دین ہیں۔اپنے طور پر ہم لیاقت علی عاصم کی غزل کے وہ عناصر جن میں اس کی باطنی کیفیت اور پورا اَحوال سامنے آتا ہے، اسے جدید غزل کہ سکتے ہیں لیکن وہ اشعار جن میں کوئی حتمی نتیجہ یا کسی حتمی معنی کا تعین مشکل ہے، انھیں ہم ما بعد جدید کہ سکتے ہیں۔ جدید اور مابعد جدید ادب کے یہ کوئی پکے ٹھکے اور لگے بندھے قواعد نہیں ہیں۔لیکن ڈھیلے ڈھالے انداز کی اس تقسیم سے ہم ان دو شعری رویوں کی کسی حد تک نشان دہی کر سکتے ہیں۔
موضوعاتی سطح پر لیاقت علی عاصم کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ اس کی دل چسپی زندگی کے عظیم بیانیوں سے نہیں یا کم از کم ان کی ساختہ سچائیوں سے تو بالکل نہیں۔ وہ زندگی کی ر وز مرہ چیزوں اور عام باتوں میں بہت دل چسپی رکھتا ہے۔اسے عام چیزیں نئے انداز اور زاویوں سے دیکھنے کا شوق ہے ، اس کا مشاہدہ خوردبینی ہے ۔چوںکہ مصور ہے سو اس کی نگاہ ہر چیز کو مصوری کا فن پارہ سمجھ کر دیکھتی ہے اور اس میں سے بہت کچھ کھوج لیتی ہے ۔ مصوری کے رنگ اور لفظ دونوں کو یکساں رویے سے استعمال کرتا ہے ۔ جس عہد میں لیاقت علی عاصم زندہ ہے ،اسے ہم عہدِ اضطراب یا کشمکش اور شور کا عہد کہ سکتے ہیں۔ یہ عجیب وقت ہے جس نے سابقہ اسالیب پر خطِ تنسیخ کھینچ دیاہے۔ دوسرے لفظوں میں اس عہد نے جس قدر نقصان سابقہ اسالیب کو دیا ،اس کی مثال نہیں۔لیکن نئے عہد کے نئے اسالیب کے نشان تک نظر نہیں آتے ہیں۔ جو توڑ پھوڑ اور انہدام ذات ، شخصیت ، قبیلوں قوموں اور ملکوں میں نظر آتا ہے،وہی اردو کی حد تک ادب میں نظر آتا ہے ۔ ایک مکمل شکست و ریخت تو ہے لیکن کہیں تعمیر کا عمل ہوتا نظر نہیں آتا ۔یہی وجہ ہے ایک نا امیدی اور شکست خوردگی لیاقت علی عاصم کے شعری اظہار میںرستہ پا گئی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ کسی حتمی بات تک پہنچنے کا کوئی منہاج بھی مہیا نہیں کرتی ہے۔ ایک تہ در تہ کیفیت ہے :
چراغ بھی دسترس سے باہر ہے اور ہوا بھی
عجیب ہوتا ہے نارسائی کا سلسلہ بھی
کوئی اپنے سوا نہیں موجود
اور ہے تو ہوا کرے کوئی
تیز کیسے چلیں کہ سینے پر
دل سا پتھر اٹھائے پھرتے ہیں
ذکرِ چراغِ جاں تھا کہ چلنے لگی ہوا
پیرایۂ بیاں ہی بدلنے لگی ہوا
عجب مقام ہے دشتِ خیال بھی عاصم
جو گھر بنا نہیں اس گھر کا شور سنتا ہوں
بستیاں پھر بس گئیں ورنہ بتاتے آپ کو
ہم نے کیا کیا سانحے دیکھے گذشتہ ماہ میں
گھر کی تقسیم کے سوا اب تک
کوئی تقریب میرے گھر نہ ہوئی
کشتیوں میں آگ لے آئے تھے ہم
اس لیے عاصم جزیرہ جل گیا
اس میں بھی شامل نہیں تھے کچھ سفر آمادگاں
نام جس ترتیبِ نو کا کارواں رکھا گیا
خواب میں ہاتھ تھامنے والے
دیکھ بستر سے گرپڑا ہوں میں
لیاقت علی عاصم کا یہ نگار خانہ جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے ان رنگوں سے آراستہ ہے جن کو کوئی خاص نام دینا مشکل ہے ۔ اس نے اپنے عہد کے سانحے متشکل کر دیے ہیں۔ اگر غور کریں تو ان سے کسی قسم کے معانی کا کشود و مکاشفہ ممکن نہیں ہے ۔ دوسرے لفظوں میں اس کے ہاں کسی مرکز جوئی کی خواہش و احتیاج نشان زد نہیں کی جا سکتی ہے بلکہ انتشار، نراج اور مرکز گریز Centrifugalکیفیات ہیں ۔ یہی آج کے انسان کی ظاہری اور باطنی صورتِ حال ہے ۔
لیاقت علی عاصم پر This road leads to no whereکی بات صادق آتی ہے ۔ پوری دنیا کی خاک چھاننے کے بعد احساس ہوگا کہ آپ وہیں کھڑے ہیں جہاں سے سفر کا آغاز کیا تھا۔ یہ کوئی ویدانتی موشگافی نہیں بلکہ ترقی کی آخری منزل کے بعد تباہی یعنی ہر عروج کے بعد زوال کی کیفیت ،لیاقت علی عاصم کی شعری خصوصیات ہیں ۔یہ آج کے انسان کا نوحہ ہے جو مذہب سے متصادم بھی ہے اور اس سے بھلائی کی توقع پر قانع بھی ہے۔ اس شعری اظہار کے پیچھے لیاقت علی عاصم کی ویدانتی کھوج اور مشاہدہ ہے ۔وہ نئے دور کی نئی اسطورہ کے خدوخال کی تشکیل کرتا نظر آتا ہے جس میں بہت کچھ انوکھااور پُراسرار ہے اور ایک نیا تلذذ بھی ہے ۔ یہ وہ تلذذ نہیں جو ہماری شعری روایت کا حصہ رہا ہے بلکہ سند بادی جہازی کے اسفار یانئی الف لیلہ کی قرات کا تلذذ ہے جس میں انسان ایک نئے سحر میں کھو جاتا ہے :
چھوڑ آیا ہوں سمندر کی نگہبانی میں
وہ جزیرہ جسے آباد کیا تھا میں نے
لوگ کہتے ہیں کہ میں گھر میں رہا اور مجھے
ایسا لگتا ہے کہ وحشت میں کہیں گھوم لیا
’’بوئے گُل، نالہ دل،دودِ چراغِ محفل‘‘
کس کے ہمراہ یہاں سیرو سفر کو چلیے
آج بھی میرے عزائم ہیں چٹانوں کی مثال
میں نے اک عمر گزاری ہے سمندر کے قریب
ایک آخری بات کہ وہ زندگی کرنے کا چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا جواز بھی ڈھونڈ لیتا ہے ۔ یہی بات اسے مافوق الفطرت کرتی ہے۔ مجھے جانے کیوں سپر ہیومن Super humanنظر آنے لگتا ہے ۔دوسروں سے مختلف اور منفرد۔ اسے وہ رویہ نہ سمجھا جائے کہ زندگی ہر مشکل اور مجبوری کے دور میں آگے بڑھنے کے راستے تلاش کر لیتی ہے ۔ یہاں ایسی مجبوری نہیں ہے بلکہ مثبت پن ہے جو ہر دانش مند کا خاصہ ہوتا ہے :
یہاں رہنا معطل کرنے والا تھا کہ تم آئے
میں دروازہ مقفل کرنے والا تھا کہ تم آئے
لیاقت علی عاصم ہمیشہ ایک نئے استفہام کے ساتھ شعر و سخن کی پیش قدمی کرتا ہے۔ اس کے ہاں خاموشی ، دریا ، لہر، محشر، کشتی، چراغ، ہوا، رات، درخت،شہر، جنگل اور معاصر مسائل ایک نئے شعری استفہامیے کی صورت میں سامنے آتے ہیں لیکن ایک مہا شور میں ڈھل کر شبِ یلدا میں ایک خونی، تیز اور طویل چیخ کا استعارہ بن جاتے ہیں :
مہ و خورشید بہت شور مچاتے ہیں مگر
نہیں جاتے تری آواز کے سائے گھر سے
شاخیں اُلجھ رہی ہیں سبھی اپنے آپ سے
کیا حال کر دیا ہے ہوا نے درخت کا
لہریں پناہ ڈھونڈ رہی تھیں چٹان میں
اک نائو آکے ٹوٹ گئی درمیان میں
تمھارے نام کی ہچکی تھی ہونٹوں پر سمٹنے کو
میں سناٹا مکمل کرنے والا تھا کہ تم آئے
خدا جانے کہاں سے آ گئے ہیں
زمین و آسماں کے درمیاں ہم
ہم اہلِ جزیرہ ہیں ہمیں کیا کہ یہ طوفاں
اِس پار سے آئے ہیں کہ اُس پار سے آئے
لیاقت علی عاصم کے اس پُر شور اور لغو ادبی منظر نامے میں یہ نئے اور سنہری شعری دستخط ہیں۔حروفِ کج تراش کی یہ لکیر آنے والی کئی نسلوں کو متاثر کرتی رہے گی ۔ آخر میں میری دعا ہے خدا اپنے حبیب پاک کے صدقے لیاقت علی عاصم کی توفیقات اور شعر کو مزید رسوخ دے ۔ آمین ،ثم آمین!

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

تنقید

شکیب جلالی

  • جولائی 15, 2019
از يوسف خالد شکیب جلالی—————-ذہنی افلاس اور تخلیقی و فکری انحطاط کی زد پر آیا ہوا معاشرہ لا تعداد معاشرتی
تنقید

کچھ شاعری کے بارے میں

  • جولائی 15, 2019
      از نويد صادق مولانا شبلی نعمانی شعرالعجم میں لکھتے ہیں: ’’ سائنس اور مشاہدات کی ممارست میں