انور سدید کا شمار ادب کی ان شخصیات میں ہوتا ہے جنھوں نے متنوع اصناف میں خامہ فرسائی کی اور ہرصنف میں اپنی تخلیقی اور تنقیدی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ۔وہ شاعر بھی تھے، نقاد بھی،تبصرہ نگار،محقق اورانشائیہ نگاربھی۔اردو ادب کی مختصر تاریخ ،اردو ادب کی تحریکیں ،پاکستان میں ادبی رسائل کی تاریخ ،اردو ادب میں سفر نامہ ،انشائیہ اردو ادب میں اوراردو افسانے میں دیہات کی پیش کش وغیرہ جیسی کتب ان کی تحقیقی و تنقیدی صلاحیتوں کا برملا ثبوت ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ اُنھوں نے افسانے کی صنف میں بھی طبع آزمائی کی۔ان کا کوئی باقاعدہ افسانوی مجموعہ تو منظرِ عام پر نہیں آیالیکن معاصر عہد کے ادبی رسائل اس بات پر شاہد ہیںکہ انور سدیدکے افسانے گاہے بگاہے اُن کے صفحات کی زینت بنتے رہے ہیں ۔ ہمایوں ، اوراق،چمنستان ،کامران،نیرنگِ خیال اورنظام ایسے ادبی رسائل ہیں جن میں انور سدید کے افسانے وقتاً فوقتاً اشاعت پذیر ہو کر قارئین کی داد وُصول کرتے رہے ۔حال ہی میں ذوالفقار احسن نے انور سدید کے افسانوں کوبعنوان ’’انور سدید کے خوابیدہ افسانے ‘‘مرتب کر کے نقش گر راول پنڈی ؍سرگودھاسے شائع کیا ہے،جس میں ان کے اُنیس افسانے شامل ہیں ۔’’نیلی رگیں‘‘ اسی مجموعے میں شامل افسانہ ہے،جو پہلی بارماہنامہ نیرنگِ خیال لاہور سے دسمبر ۱۹۴۸ء میں شائع ہوااوراب اس کتاب کا حصہ بنا ہے۔
’’نیلی رگیں‘‘ انور سدید کا ایسا افسانہ ہے جس میں محبت کی کہانی کے ذیل میں عصری صورتِ حال، نو آبادیاتی ہندوستان میں انگریزحاکموں کے عوام کے ساتھ رویے،درمیانے طبقے کے مسائل ،شہری اور دیہاتی زندگی کے امتزاج اورگاؤں کی رسومات کو موضوع بنایا گیا ہے۔کہانی کاریا بیان کنندہ(Narrater) صیغہ واحد غائب کے ذریعے کہانی آگے بڑھاتا ہے،بیان کنندہ بذات ِ خودافسانے میں ہمہ دان کردار کے طور پر موجود ہے ۔جیسے ہی افسانے کا آغاز ہوتا ہے تو قاری کو دیہات میں واقع ایک ڈاک خانے کے منظر سے واسطہ پڑتا ہے،جہاں افسانے کا مرکزی کردار ماضی کی یادوں میں گم اپنی محبت ’’گوراں ‘‘ کی یادمیں محو ہے۔گوراں جو اُس کی زندگی میں شہابِ ثاقب کی مانند نمودار ہوئی اور بھر پلک جھپکتے ہی وقت کی تاریکی میںکہیں گم ہو گئی۔اب جب وہ ڈاک خانے کے کام سے اُکتا جاتا ہے تو’’گوراں‘‘ کی یاد اُسے تھکن سے رہائی دِلاتی ہے۔
افسانے کا پلاٹ خطِ مستقیم کی بجائے قوس کی شکل بناتا ہوا نہ صرف آگے کی طرف بڑھتا ہے بلکہ اپنے اصل کی جانب لوٹنے کے جتن میںبھی سر گرداں ہے اوریہ قوس اُس وقت دائرے کی شکل اختیار کر لیتی ہے جب قاری افسانے کے اختتام تک پہنچتا ہے۔افسانے کے اختتام پر قاری کو اُسی منظر کا سامنا ہے جہاں سے اَفسانے کا آ غاز ہوا تھا ،یعنی جہاں ڈاک والا بابو ’’ گوراں ‘‘ کی یاد میں محو تھا۔پلاٹ میں کہانی کا آ خری واقعہ قاری کے سامنے بیان کرنے کے بعد،کہانی کار فلیش بیک تکنیک کے ذریعے ماضی کے مناظر سے یکے بعد دیگرے پردہ ااُٹھا تا چلا جاتا ہے ۔ماضی کے واقعات مرکزی کردار کے پس منظر سے قاری کوروشناس کرواتے ہیں۔قاری اس کی پہلی محبت ’’ سٹینلا‘‘ سے واقف ہوتا ہے، اس کے والد کی وفات ،سٹینلا کی بے وفائی، انگریز سے سٹینلاکے جنسی تعلقات، ڈاک خانے میں اس کی ملازمت، گاؤں میں تبادلے، گوراں سے شناسائی اور دور دراز ایک اور گاؤں میں اس کا تبادلہ،ایسے واقعات ہیں جو فلیش بیک تکنیک کے سہارے سامنے لائے گئے ہیں جن سے افسانہ نگار نے نہ صرف تجسس اور دلچسپی کے عنصر کو پیدا کیا ہے بلکہ پلاٹ کی مخصوص بُنت کا کام بھی لیا ہے۔منظر کشی، رومانویت کے عناصر،جزئیات نگاری اورکرداروں کی داخلی کیفیات کا بیان کہانی کی رفتار کو اپنی گرفت میں رکھتا ہے۔افسانہ دھیرے دھیرے آگے بڑھتا ہے اور واقعات کی مخصوص ترتیب قاری کو لطف پہنچاتی ہے۔پلاٹ میں واقعات کی ترتیب کو دیکھا جائے تو افسانہ جہاں سے شروع ہوا تھا اسی منظر پر اس کا خاتمہ ہوتا ہے جو ہمیں غلام عباس کے اَفسانے ’’آنندی‘‘ کی یاد دلاتا ہے۔قاری جس واقعے سے کہانی کا آغاز کرتا ہے ،چکر کاٹ کر وہیں آ کھڑا ہوتا ہے جس سے دائرہ مکمل ہو جاتا ہے’’ نیلی رگیں‘‘کا پلاٹ بھی ’’آنندی‘‘ کی طرح اسی انداز سے تشکیل پذیر ہوا ہے۔
بیسویں صدی کے عالمی سیاسی اور سماجی منظر نامے کو اگر دیکھا جائے تو اس دور میں متعدد جنگیں لڑی گئیں ۔ان میں جنگِ عظیم اوّل، جنگِ عظیم دوّم ، جنگِ بلقان،جاپان اور روس کی جنگ وغیرہ خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ بر صغیر چوں کہ اس دور میں برطانیہ کی نو آبادی تھا اس لیے یہاں کی عوام نے ان جنگوں سے براہ ِراست اثرات قبول کیے۔ماحول کی تبدیلی ،اقتصادی بدحالی ،سیاسی انتشار اورمعصوم جانوں کے ضیاع سے لے کرنفسیاتی عدم توازن کی کیفیات تک ریکارڈ کی گئی ہیں ۔بیسویں صدی میں لڑی جانے والی ان جنگوں کا خمیازہ ہماری نسلیں آج تک بھگت رہی ہیں،اور نہ جانے کب تک بھگتتی رہیں گی؟ ۔ایک حساس اور باشعورذہن اپنے عہد کی سیاسی اور سماجی صورتِ حال سے کس طرح بے خبر رہ سکتا ہے۔انور سدید نے بھی اس افسانے میں نو آبادیا تی عہد میں لڑی جانے والی ان جنگوں کے اثرات کو مو ضوع بنایا ہے۔عام آ دمی پراس کے کیا اثرات مرتب ہوئے اس حوالے سے افسانے کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
’’اور اسی طرح روز اس کے پاس دیہاتی جن کے بیٹے جنگ ختم ہو جانے کے باوجود میدان سے واپس نہیں آئے تھے اور اس کے خیالات کا تسلسل برہم ہو جاتا۔ وہ انھیں دلاسا دیتے ہوئے کہتا۔
’’آپ فکر نہ کریں ۔اب کہ ایسا خط لکھوں گاکہ ساتھ ہی کھینچا چلا آئے گا‘‘
اور دیہاتیوں کے چلے جانے کے بعدخیالات کا ٹوٹا ہوا سلسلہ پھر جُڑ جاتا۔آنکھوں کے آگے ’’گوراں‘‘ کی تصویرپھر رقص کرنے لگتی اور اس کے دل کو پھر طمانیت و سکون محسوس ہونے لگتا۔‘‘
(نیلی رگیںمشمولہ انور سدید کے خوابیدہ افسانے،مرتب ذوالفقار احسن،نقش گر راول پنڈی،۲۰۱۵،ص۱۰۶)
جنگ کی صورت ِ حال پورے افسانے میں داخلی ربط قائم رکھنے میں مدد گار ثابت ہوئی ہے۔ہر واقعہ میں ربط کے پس ِپردہ جنگ کا خوف اورنو آبادیاتی صورتِ حال کے قبیح اثرات موجود ہیں ۔مرکزی کردار(ڈاک والا بابو) کے والد کی وفات کے بعد مجبوراًاُس کا ڈاک خانے کی ملازمت اختیار کرنا ۔ اس کی پہلی محبت ’’سٹینلا‘‘ سے دوری ، گوراں سے قربت وغیرہ جنگی صورتِ حال کے اثرات کا نتیجہ ہے۔گوراں کا بھائی شہباز اگر فوجی نہ ہوتا تو ڈاک والے بابو کا داخلہ گوراں کے گھر میں کسی صورت ممکن نہ تھا ۔ ڈاک والا بابوفوجیوں کی خبریں سنانے کے بہانے ان کے گھر پہنچ جاتاہے اور اسی بہانے گوراں کی قربت سے حظ اٹھاتا رہتا ہے۔یہاں گاؤں کی ثقافت میں بہن کی بھائی سے بے لوث محبت کا جذبہ بھی نمایاں ہواہے۔گاؤں کی بہن جو اپنے بھائی سے غیر مشروط محبت کرتی ہے ،اس کے گیت گاتی ہے،اور ہر لحظہ اس کی خوشحالی اوربھلائی کی خواہاں ہے۔’’گوراں‘‘کا کردار بھی گاؤںکی اُس روایتی بہن کی عکاسی کرتا دکھائی دیتا ہے،ا س حوالے سے افسانے کا اقتباس ملاحظہ ہو:
’’ فوجیوں کی خبریں ۔ میدانِ جنگ سے واپس آنے والوں کی خبریں، فوجیوں کو دئیے جانے والے اعزازوں کی خبریں اور گوراں اپنے باپ کے پاس بیٹھی پورے انہماک سے اس کے ہلتے ہوئے لبوں سے نکلتے ہوئے لفظ سنتی رہتی اور اس کے چہرے کو یوں تکتی جیسے اس کا مستقبل اسی کے ساتھ وابستہ کیا جا رہا ہو۔‘‘
(نیلی رگیں:ص۱۱۱)
افسانہ کا بیشتر حصہ دیہاتی سماج کو منعکس کرتا دکھائی دیتا ہے۔ خاص طور پر برِ صغیر کا وہ سماج جو بیسویں صدی کے آغاز میں جنگی صورتِ حال کے اثرات قبول کر رہا تھا ۔نوآبادیاتی نظام اور جنگی صورتِ حال کے نتیجے میں بستیاں ویران ہوئیں ۔ دیہاتیوں کے چہروں پر بکھری مسکراہٹیں ،اداسیوں میں بدل گئیں ۔ دیہاتی جوان کھیت کھلیانوں کو خیر باد کہہ کر شہر کے کارخانوں میں مزدوریاں کرنے پر مجبور ہوئے۔فیض احمد کا یہ شعر اس دور کے دیہات کی بھر پورعکاسی کرتا دکھائی دیتا ہے۔
یہ حسیں کھیت پھٹا پڑتا ہے جوبن جن کا!
کس لیے ان میں فقط بھوک اگا کرتی ہے
نو آبادیاتی دور میںجنگ میں کام آنے والے فوجی دیہاتوں سے زبر دستی بھرتی کر کے میدانِ جنگ میں بھیجے جاتے تھے،جہاں وہ عالمی طاقتوں کے مفادات پر اپنی جانیں قربان کر دیتے اور ان کی مائیں ،بہنیں اور بیویاں گھروں میںان کی منتظر رہتیں۔نو آباد کاروں نے ہندوستانی دیہاتوں سے متعدد دستے بھرتی کر کے جنگوں میں بھیجے ان میں کیولری بر گیڈ،آرمڈ برگیڈ،موٹر بر گیڈ،اینٹی ائیر برگیڈ اورانفینٹری بر گیڈ وغیرہ کے نام قابل ِذکرہیں ۔غور کریں تو مذکورہ افسانے میں بھی بیشتر دیہاتیوں کے نوجوان بیٹے جنگ لڑنے دساور گئے ہوئے ہیں، جن کے خطوط کا انتظار بوڑھے دیہاتیوں کوہر لمحہ بے چین رکھتا ہے۔ اس کرب ناک صورتِ حال کا بیان افسانے کے اس اقتباس میں ملاحظہ کیجیے۔
’’جی ہاں ! شیر خان جنگ پر گیا ہوا ہے نا۔ بہت دنوں سے اس کا کوئی خط نہیں آیا ۔ بے چارے کی ماں ہر وقت روتی رہتی ہے۔ آنکھیں بھی سُجا لی ہیں اس نے۔ بھلا جنگ کے دنوں میں خط پہنچ جاتا ہو گا بابو جی سمندر پار میرے شیر خان کے پاس؟‘‘
(نیلی رگیں:ص۱۰۵)
اسی صورتِ حال کی عکاسی کرتا افسانے کا ایک اور اقتباس ملاحظہ ہو :
’’اور اسی طرح روز اس کے پاس دیہاتی جن کے بیٹے جنگ ختم ہوجانے کے باوجودمیدان سے واپس نہیں آئے تھے اور اس کے خیالات کا تسلسل برہم ہو جاتا۔ وہ انھیں دلاسے دیتے ہوئے کہتا۔
’’آپ فکر نہ کریں۔ اب کے ایسا خط لکھوں گا کہ ساتھ ہی کھینچا چلا آئے گا۔‘‘
اور دیہاتیوں کے چلے جانے کے بعدخیالات کا ٹوٹا ہوا سلسلہ پھر جُڑ جاتا۔ آنکھوں کے آگے گوراں کی تصویر پھر رقص کرنے لگتی اور اس کے دل کو پھر طمانیت و سکون محسوس ہونے لگتا۔‘‘
(نیلی رگیں:ص۱۰۶)
افسانے میں شہری اور دیہاتی زندگی کا موازنہ کرنے کی بھی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ افسانے کی بیش تر فضا دیہاتی زندگی کی عکاسی کرتی دکھائی دیتی ہے،چوں کہ افسانے کے مرکزی کردار کا تعلق لاہور شہر سے ہے اسی لیے بڑے شہر کی زندگی اوروہاں کا تمدن افسانے کی کہانی کا حصہ بنا ہے۔ شہر تیزی سے بڑھتے چلے جا رہے ہیں، جب کہ گاؤں کی آبادی میں کمی آتی جا رہی ہے۔سہولیات کے پیشِ نظر کئی خاندان گاؤں سے ہجرت کرکے شہروں کا رخ کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ اگر شہری زندگی کی سہولیات انھیں گاؤں میں ہی مہیا کر دی جائیں تو اس ہجرت کو روکا جا سکتا ہے مگر ہماری حکومتوں کی ترجیحات میں یہ سب شامل نہیں ہے۔افسانے میں ڈاک والا بابو بھی دیہاتی زندگی سے اسی لیے اُکتا جاتا ہے کہ وہاں کے کچے مکان ،گندی گلیاں ، بدبو دار جوہڑ اورغلیظ بچے اُسے اچھے نہیں لگتے۔
’’ لاہور کے جنرل پوسٹ آفس سے تبدیل ہو کر اُن دنوں وہ پہلی بار گاؤں کے ڈاک خانے میں لگا تھا ۔ لاہور کی پر شور فضا سے علیحدہ ہو کر وہ ایک ایسی جگہ آیا تھا ،جہاں نہ لارنس کی سی حسین روشیں تھیں نہ مال جیسی زندہ سڑکیں ، نہ انار کلی جیسے کیف و رنگ میں ڈوبے ہوئے پُر شور بازار۔ افق کی سیاہ لکیر تک پھیلے ہوئے سر سبز کھیت، پنگھٹ پر چلتے ہوئے رہٹ کی اکتا دینے والی مسلسل رو ں روں، کچے مکان و گندی گلیاں ، بدبو دار جوہڑ، مٹی اور کیچڑ میں کھیلتے ہوئے بچے۔ بچوں کے غلیظ بدنوں پر بھنبھناتی ہوئی مکھیاں اور اجڈ دیہاتیوں کی بہکی بہکی باتیں۔ وہ چند دنوں میں اس فضا سے متنفر ہو گیا۔ اسے وحشت ہونے لگی اور اس کا جی چاہنے لگا کہ جھٹ استعفیٰ دے کر واپس لاہور چلا جائے لاہور…… جہاں فلورا ہوٹل میںملازم اس کی عیسائی محبوبہ رہتی تھی۔‘‘
(نیلی رگیں :۱۰۶)
مگر جیسے جیسے اس کا وقت گزرتا جاتاہے اور دیہاتیوں سے اس کا لینا دینا بڑھتا ہے یہ اجنبیت ختم ہوتی چلی جاتی ہے۔شام کے اوقات میں جب وہ افق تک پھیلے کھیتوں کی سیر کرنے نکلتا تو اس کے سارے دن کی تھکن اُترسی جاتی اور وہ ہشاش بشاش واپس اپنی آرام گاہ کی جانب لوٹتا۔ بالآ خر اس کا سا منا گوراں سے ہو جاتا ہے جو اسے سٹینلا کی بھی یاد بھلا دیتی ہے۔سٹینلا اور گوراں دو ایسے نسوانی کردار ہیں جو مرکزی کردار( ڈاک والا بابو) کی زندگی میں تبدیلی کا باعث بنے ہیں۔سٹینلا جو فلورا ہوٹل میں ملازم اس کی عیسائی محبوبہ تھی ۔یہ اُن دنوں کی بات ہے جب وہ کالج کا طالبِ علم تھا اور اس کا باپ زندہ تھا ،جو ہر ماہ اس کو باقاعدگی سے اخراجات بھیج دیتا تھا اورزندگی اپنے ڈگر پر رواں دواں تھی ۔باپ کی وفات کے بعد اس کی زندگی میں انقلابی تغیر رونماہوا اور اسے ملازمت اختیار کرنا پڑی۔ سٹینلا بے وفا ثابت ہوئی اور وہ اُسے چھوڑ کرایک فرنگی کی آغوش میں جا بیٹھی۔یہاں افسانہ نگاراپنی قوم کی غلامی پر گہرا طنز کرتا ہے:
’’ اور وہ کچھ بھی نہ کر سکا کیوں کہ سٹینلا ایک گورے کی آغوش میں تھی اور گورا ایک آزاد قوم کا فرد تھا ‘‘
مگر ڈاک والا بابو تو گوراں کے لیے بھی کچھ نہ کر سکا حالاں کہ گوراں اور وہ دونوں غلام قوم کے افراد تھے ، ان میں آزاد اور غلام کا تضاد موجود نہ تھا۔ اس طرح اپنی محبت کے حصول میں ڈاک والا بابو خا صا کمزور واقع ہوا ہے ۔نہ ہی سٹینلا اور نہ ہی گوراں کے لیے اس نے جدو جہد کی ہے۔وہ اپنی محبت میں احساس ِ ملکیت سے عاری ہے ،یہی وجہ ہے کہ اب یادوں کے سوا اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔
سٹینلا کے مقابلے میں گوراں کا کردار خا صا متحرک اور دلیرہے ، وہ بلا ججھک ڈاک بابو کے کمرے میں چلی جاتی ہے جہاںوہ اوندھے منہ لیٹا ہوا ہے۔اور جب وہ اسے لوگوں کے شکوک و شبہات سے آگاہ کرتا ہے تو وہ ایک بپھری ہوئی شیرنی کی طرح گرج کر کہتی ہے۔’’ لیکن مجھے ان کی کیا پرواہ ؟‘‘،’’ کون کمینہ یہ لفظ کہتا ہے ……میں اس کا منہ نوچ لوں گی!‘‘اتنی بلند حوصلہ اور بے باک گوراں چپ چاپ بیاہ دی جاتی ہے اور ڈاک بابو بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کی یاد کو سینے سے لگا نا ہی اپنی عافیت سمجھتا ہے۔
افسانے میں کئی ایک دیہاتیوں کے کردار بھی موجود ہیں جو ڈاک بابو سے خط کے لفافے خریدنے یا خط لکھوانے آتے ہیں ، جو افسانے میں نمایاں نہیں بلکہ ضمنی کردار کے طور پر موجود ہیں ۔ قائم علی چپڑاسی کا کردار ایک روایتی کردار ہے جو تقریباً ہر معاشرے میں پایا جاتا ہے ۔ گاؤں کے معاشرے میں اس طرح کے کردار خاص طور پر نمایا ں ہوتے ہیں۔قائم علی جو پہلی بار ڈاک بابو کو گوراں سے متعارف کرواتا ہے اور پھر جب ڈاک بابو اس کی محبت میں گرفتار ہو جاتا ہے تو وہ مزے لیتے ہیں ۔ بغور دیکھیں تو وہ ایک چارہ گر کی صورت میں بھی موجود ہے اور ڈاک بابو اُس سے راز و نیاز کی باتیں کرتا ہے ۔
مختصراًافسانہ ’’ نیلی رگیں‘‘انور سدید کا فنی اور فکری لحاظ سے جاندار افسانہ ہے جو رواں اسلوب کے ذریعے آغاز سے انجام تک قاری کو اپنی گرفت میں لیے رکھتا ہے۔ اپنی وحدتِ تاثر کی خصوصیت کی بنیاد پر قاری کو اپنے سحر میں مبتلا کر لیتا ہے،اگر چہ محبت کی کہانی ہے لیکن اس کی ذیل میں وہ ساری صورتِ حال سامنے آ گئی ہے جو تقسیمِ ہندوستان سے پہلے موجود تھی۔