برطانیہ کا نظام تعلیم ایجوکیشن اور انوویشن ڈیپارٹمنٹ کے زیر نگرانی کام کر تا ہے جبکہ ان سکولوں میں حکومتی پالیسیوں کا نفاذ لوکل اتھارٹیز کے سپر د ہوتا ہے۔یہ تعلیمی نظام نرسری،پرائمری، سیکنڈری اور ٹریٹری ایجوکیشن میں منقسم ہے ۔نرسری تعلیم 3 سے 4 سال، پرائمری تعلیم 5 سے 11 سال،سیکنڈری تعلیم 12 سے اٹھارہ سال اور ٹرٹری ایجوکیشن کے لیے 18 سال سے زائد کی عمر درکار ہوتی ہے ۔ برطانیہ میں 5 سے 16برس تک کی عمر کے تمام بچوں کے لیے کل وقتی تعلیم لازمی قرار دی گئی ہے اور یہ لازمی تعلیم بچے کے پانچ سال کی عمر کو پہنچتے ہی شروع ہو جاتی ہے ۔ سیکنڈری تعلیم جسے جی سی ایس ای کہتے ہیں، اے لیول اور دوسرے پری یونیورسٹی کورسز اور ڈگریوں کے لیے ضروری ہے ۔اس میں بزنس اور ٹیکنالوجی ایجوکیشن کونسل کی درسیات بھی شامل ہیں۔برطانیہ میں لازمی تعلیمی عمر کے لیے 2008ءمیں ایک ایکٹ منظور کیا گیاتھا جس کے تحت لازمی تعلیمی عمر 2013 ءمیں 16سال سے بڑھا کر 17سال اور 2015ءمیں اٹھارہ سال کر دی گئی تھی۔برطانیہ کے سرکاری سکولوں میں تعلیم وتدریس بغیر کسی فیس کے ہوتی ہے ۔ہائر ایجوکیشن 3 سالہ بیچلرز ڈگری کے ساتھ شروع ہوتی ہے۔پوسٹ گریجویٹ ڈگریاں تدریس اور تحقیق دونوں ذرائع تعلیم سے حاصل کی جا سکتی ہیں جبکہ ڈاکٹریٹ کی تحقیقی ڈگری تین سال کی تحقیق پر مبنی ہوتی ہے ۔
برطانیہ میں مذہبی سکول بھی قابل ذکر تعداد میں موجود ہیں جنھیں مختلف مذہبی گروپ چلاتے ہیں۔ان میں رومن کیتھولک اور چرچ آف انگلینڈ کے تحت چلنے والے سکول شامل ہیں۔مسلمانوں کے مختلف مکاتب فکر کے سکول بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔حکومتی امداد سے چلنے والے 90 فیصد سیکنڈری سکول سپیشلسٹ سکول ہیں جنہیں حکومت ایک یا زیادہ مضامین میں تخصیص حاصل کرنے لیے زیادہ امداد دیتی ہے۔سرکاری سکولوں کے طلبہ کی اگلی کلاسوں میں ترقی کا انحصار ان کی ذہنی اور بلوغت کی عمر پرہوتا ہے۔بعض اوقات طلبہ کو ان کی بیماری یا لمبی غیر حاضریوں پر یا اسٹنڈرڈ ٹسٹ میں غیر تسلی بخش کارکردگی پر فیل کردیا جاتا ہے ۔اسی طرح ایک طالب علم جو ہم عمر ساتھیوں سے زیادہ ذہین اور اعلیٰ کارکردگی دکھاتا ہے، اسے ایک یا زیادہ اگلی کلاسوں میں ترقی دے دی جاتی ہے ۔عمومی طور پر طلبا11سال کی عمر میں پرائمری سے سیکنڈری لیول میں ترقی پاتے ہیں۔ مگربعض علاقوں میں 9 سے 13 سال تک انٹر میڈیٹ مڈل لیول کروایا جاتا ہے۔جی سی ایس ای لیول کو 1987ءتک او لیول ہی کہتے تھے،اس کے بعد اسے،جی سی ایس ای (General Certificate Of Secendary Education)کا نام دیا گیا۔
برطانیہ میں طلبہ کے لیے ایک خاص عمر تک دوسری زبانوں کی تعلیم حاصل کرنا لازمی ہے ۔انگلستان میں 14 سال تک اور سکاٹ لینڈ میں 16 سال تک دوسری زبانوں کی تدریس لازمی ہے اور سیکھی جانے والی دوسری زبانوں میں فرانسیسی اور جرمن مقبول ترین زبانیں ہیں۔برطانیہ میں اردو کو جدید زبانوں(Modern Forign Languages) میں شمار کیا جاتا ہے اور یہ”سکولوں میں پڑھا اور پڑھایا جانے والا چھٹا مقبول ترین مضمون ہے ۔ہر سال کوئی نہ کوئی نیا اسکول اردو کو بحیثیت جدید غیر ملکی زبان کے متعارف کراتا ہے ۔فرانسیسی،جرمن یا ہسپانوی زبان کی جگہ بچے اردو منتخب کر سکتے ہیں۔“(1)
برطانیہ کے سرکاری سکولوں میں اردو زبان،نرسری اور پرائمری سطح پر نہیں پڑھائی جاتی بلکہ سیکنڈری سطح کے مدارس میں پڑھائی جاتی ہے ۔سیکنڈری سطح پر 11 سال سے 16 سال تک کی عمر تک تعلیم وتدریس ہوتی ہے۔اردو برطانیہ کے سکولوں میں ماڈرن فارن لنگوئج کے طور پر پچھلے کئی سالوں سے پڑھائی جا رہی ہے ۔محمود ہاشمی مرحوم نے مقتدرہ قومی زبان کے لیے ”برطانیہ میں اردو کی تعلیم“ کے عنوان سے1985 ءمیں ایک پمفلٹ لکھا تھا جس میں انہوں نے برطانیہ میں اردو بولنے والے تارکین وطن کے بچوں کو اردو زبان کی تدریس کے حوالے سے بڑی مفید معلومات مہیا کی تھیں۔اس کے مطالعے سے 80 ءکی دہائی اور بعد میں اردو کے تعلیمی مسائل پر مفید معلومات ملتی ہیں۔اس وقت اردو جدید زبانوں میں شامل نہیں تھی ۔اڈ وقت کی صورتحال کے متعلق وہ لکھتے ہیں:۔
”اس وقت لندن کے بعض سکولوں کے علاوہ برمنگھم، بریڈ فورڈ،مانچسٹر، برٹن،اون ٹرینٹ،چڈیل،پیٹر برو، اور مڈلز برو کے سکولوں میں اردو پڑھائی جا رہی ہے ۔ اگرچہ ان سکولوں میں اسے مادری زبان کے طور پر پڑھایا جا تا ہے، تاہم بعض سکولوں میں انگریز اور ویسٹ انڈین بچے بھی اردو کی کسی نہ کسی جماعت میں نظر آجاتے ہیں۔ اگر اردو کو یہاں کی نصابی اصطلاح کے مطابق”ماڈرن لینگوئج“ کا درجہ دے کر دوسری یورپی زبانوں،فرانسیسی،جرمن،ہسپانوی،اطالوی کی طرح نصاب میں شامل کر لیا جائے تو اس میں انگریز اورویسٹ انڈین بچوں کی دلچسپی یقیناً بڑھ جائے گی اور حکومت پاکستان کوئی ایسا انتظام کرد ے کہ اردو پڑھنے والوں میں سے کچھ بچے ہر سال ایک دو ہفتوں کے لیے ہی سہی پاکستان کی سیر کر سکیں تو برطانیہ کے سکولوں میں اردو بہت زیادہ مقبول ہو سکتی ہے۔“(2)
محمو د ہاشمی کی اس تجویز پر بعد میں بھی مختلف حلقوں کی طرف سے اظہار خیال کیا جاتا رہا مگرآج تک کوئی حکومت یا تنظیم ،وہاں پیدا ہونے والی نسل کو اپنے آبائی معاشرے کی سیر اورمشاہدے کے لیے،پاکستان نہیں لا سکی۔ہاں انفرادی طور پر بچے اپنے والدین کے ساتھ پاکستان اور ہندوستان آتے رہتے ہیں لیکن یہ آمدورفت چونکہ انفرادی سطح پراور بعض دوسرے مقاصد کے لیے ہوتی ہے ،اس لیے تہذیبی شعور اور زبان کو سیکھنے کے حوالے سے دور رس نتائج برآمد نہیں ہوتے۔
برطانیہ کے سکولوں میں اردو پڑھانے والے اساتذہ کی بھی ہمیشہ کمی رہی ہے ۔اس سلسلے میں محمود ہاشمی لکھتے ہیں ”ان شہروں میں جہاں کے سکولوں میں اردو پڑھائی جا تی ہے ، عام طور پر گشتی استاد مقرر ہیں۔ جنہیں بیک وقت ایک سے زیادہ سکولوں میں جانا پڑتا ہے ۔برمنگھم،بریڈ فورڈ اور نوٹنگھم جیسے بڑے شہروں میں جہاں ایک سے زیادہ اساتذہ کا تقرر کیا گیا ہے ،کوشش کی جاتی ہے کہ استاد سکول کے اوقات میں ہی اردو پڑھائیں لیکن ٹائم ٹیبل ہمیشہ ان کی راہ کا روڑا بنا رہتا ہے ۔استاد صاحب کسی ایک سکول میں یا دو جماعتوں کو اس وقت پڑھاتے ہیں جب اس جماعت کے باقی بچے فرانسیسی یا کوئی اور یورپی زبان پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ لیکن اس کے بعد انہیں کسی اور سکول میں جانا پڑتا ہے، نتیجہ یہ ہے کہ وہ کسی سکول میں بھی اس سکول کے اوقات میں ان تما م بچوں کو کبھی اردو نہیں پڑھا پاتے جو اردو پڑھنا چاہتے ہیں۔“(3)
محمود ہاشمی نے اس وقت کے اساتذہ کو درپیش ایک اہم مسئلے کی نشاندھی بھی کی تھی۔مثلا ”اردو کے استاد کو ایک ہی جماعت میں متنوع قسم کے شاگردوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔یہاں حروف تہجی،الف ب پ سے آغاز کرنے والے بھی ہو تے ہیں اور ان کی کمی بھی نہیں ہوتی جو پاکستان سے تیسری ،چوتھی یا پانچویں یا چھٹی بلکہ ساتویں ،آٹھویں یا نویں جماعت میں پڑھ رہے تھے کہ برطانیہ آگئے۔ان میں ایسے بھی ہوتے ہیں جو مقامی مسجد کے مدرسہ میں کئی کئی سال سے باقاعدگی سے جاتے ہیں لیکن اردو کی دوسطریں بھی روانی سے نہیں پڑھ سکتے اور لفظ لفظ پر اٹکتے ہیں۔ایسے بھی ہیں جو سالہا سال گھر سے مسجد اور مسجد سے گھر آجا رہے ہیں۔ لیکن ابھی تک ب۔پ۔ت۔ث سے آگے نہیں بڑھے۔ کچھ تو جماعت میں اس لیے آتے ہیں کہ ڈیڈ کہتا ہے کہ میں پاکستانی لینگوئج پڑھوں“(4)
اسی طرح کچھ بچے اس لیے اردو پڑھنا چاہتے ہیں کہ پاکستان سے اردو میں آنے والے خطوط پڑھ سکیں اور کچھ صرف بولنے اور سمجھنے کی حد تک پڑھنا چاہتے ہیں کہ جب وہ کسی انڈین فلم کی ویڈیو دیکھیں تو اس کا ہر ڈائیلاگ سمجھ سکیں۔ویسٹ انڈین لڑکے اس لیے اردو سیکھنا چاہتے ہیں کہ جب گراونڈ میں پاکستانی لڑکے باتیں کررہے ہوں تو وہ جان سکیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں اور انگریز طالب علم اس لیے اردو سیکھنا چاہتے ہیں کہ کہ وہ پاکستانی دوستوں سے ان کی زبان میں بات چیت کر سکیں۔
آج کل برطانیہ میں اردو کے ابتدائی نصاب کے طور پر سٹیج ون ،سٹیج ٹو،سٹیج تھری اور سٹیج فور کے ایسے قاعدے اور درسی کتب مل جاتی ہیں جنھیں تارکین وطن اساتذہ نے وہاں کی ضرورتوں کے پیش نظر تصنیف اور مرتب کیا ہے ۔لیکن 80اور 90 کی دہائی میں درسی قاعدے اور کتب عام طور پر پاکستان سے منگوائی جاتی تھیں۔ان سے طالب علم کے لیے جو مسائل پیدا ہوتے تھے ان کے بارے میں محمود ہاشمی نے لکھتے ہیں۔”برطانیہ میں اردو کی جو درسی کتابیں آسانی سے ملتی ہیں وہ عام طور پر پاکستان سے منگوائی جاتی ہیں۔چونکہ یہ کتابیں پاکستان میں رہنے والے بچوں کے لیے لکھی گئی ہیں، اس لیے ان کے موضوعات اسی ماحول سے مطابقت رکھتے ہیں۔جو پاکستان میں رہنے والے بچوں کا ماحول ہے ۔برطانیہ میں اردو پڑھنے والوں کا گھر ،گھر کی مکانیت،پڑوس ،گلی حتیٰ کہ زمین وآسمان کا رنگ تک مختلف ہے ۔یہاں سردی کا موسم اپنے ساتھ کرسمس کی رونق،چھٹیاں اور سنو لاتا ہے ۔ گرمی کا موسم پارک میں جا کر کھیلنے اور گھر سے باہر گھومنے پھرنے کی دعوت دیتا ہے ۔حالانکہ پاکستان میں اس موسم میں گھر سے باہر نکلنا ایک عذاب ہے ۔پاکستان میں بارش برسے تو موسم سہانا ہو جاتا ہے ۔یہاں بارش موسم کا ستیا ناس کر دیتی ہے ۔ چنانچہ پاکستان سے آئی ہوئی درسی کتابوں میں یہاں کے پاکستانی بچے جب گھر ،سکول،یا موسم وغیرہ کے بارے میں پڑھتے ہیں تو ان میں سے اکثر کے کچھ پلے نہیں پڑتا ۔ہر بات بے معنی معلوم ہوتی ہے ۔لے دے کے حروف اور الفاظ کی بے جان شکلیں رہ جاتی ہیں جنھیں پڑھنا ان کے لیے غیر دلچسپ اور میکانکی عمل بن جاتا ہے “(5)
بعض حروف تہجی اورہم صوت لفظوں کی سمجھ بھی برطانوی بچوں کے لیے مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔اس مسئلے کے بارے میں محمود ہاشمی لکھتے ہیں:۔
”وہ ،الف ا نار اور ب بکری کی منزل طے کر بھی لیں تو ث ۔ثمر۔ژ۔ژالہ۔ذ۔ذخیرہ۔ض۔ضعیف۔ظ۔ظروف اور ی۔یکہ ان کو طرح طرح کی بھول بھلیوں میں ڈال دیتے ہیں۔ان مروجہ قاعدوں میںر۔ریل کے بعد ڑ آتی ہے ۔اردو کا کوئی لفظ ’ڑ‘ سے شروع نہیں ہوتا لہذا اس کے لیے تصویر ناممکن ہے ۔چنانچہ اسے ریاز کا ہمزاد سا بنا کر لکھا جاتا ہے ۔جو ظاہر ہے بچوں کی الجھنوں میں اضافہ کرتا ہے یا اسے تصویر کے خانے میں بٹھا دیا جاتا ہے ۔بعد میں ءکے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک ہوتا ہے “ (6)
محمود ہاشمی کے خیال میں برطانیہ میں بچوں کے لیے مناسب درسی کتب اور لائبریوں کا فقدان ہے، اس کے ساتھ ساتھ اکثر سکولوں کی ہیڈ ٹیچر ز کا رویہ بھی اردو کی تدریس کی نسبت اجنبی اور مغائرت پر مبنی ہوتاہے اور وہ اسے ایک مضمون کے طور پر لینے کے لیے تیار نہیں ہوتیں۔اس کے ساتھ ساتھ مقامی ایجوکیشن کمیٹی اور مقامی ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کسی ایشیائی گروپ کے دباؤ میں آکر یایورپ کی مشترکہ منڈی کے سامنے سرخرو ہونے کے لیے جو مادری زبانوں کو بہت اہمیت دیتی ہے ،سکولوں میں اردو ٹیچر کا تقرر کردیتا ہے لیکن اکثر ہیڈ ٹیچرز اردو کے نام سے ہی بدکتے ہیں اور وہ اس زبان کوفرانسیسی،جرمن،اسپینش اور اطالوی زبانوں کے ساتھ جگہ دینے پر ذہنی طور پر تیار نہیں ہو پاتے۔چنانچہ اردو کے ساتھ سکول میں بھی سامراجی رویہ رکھتے ہوئے، اکثر اس کی کلاس دوپہر کے کھانے کے دوران یا چھٹی کے بعد رکھی جاتی ہے ۔ان کے بقول برطانیہ کے ہزاروں لاکھوں سکولوں میں کتنے ایسے ہیں جہاں ارود کو ٹائم ٹیبل میں جگہ ملی ہو ؟ ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔اس کے ساتھ ساتھ تربیت یافتہ اساتذہ کی کمی اور سرکاری سکولوں میں ان کے تقرر کا معیار بھی اردو کی تدریس میں مشکلات پیدا کرتا ہے ۔
ان مسائل کو عاشور کاظمی نے بھی اپنے ایک مضمون کا حصہ بنایا ہے۔وہ لکھتے ہیں:۔
”ایک شہرہ ہے کہ برطانوی سکولوں میں اردو پڑھائی جا رہی ہے ۔لیکن کوئی نہیں سوچتا کہ اس پڑھائی کا معیار کیا ہے ۔اردو پڑھانے والے اساتذہ تربیت یافتہ ہیں یا غیر تربیت یافتہ۔برطانیہ میں اردو کے اساتذہ کی تربیت کا کیا انتظام ہے ؟ برطانیہ کے تعلیمی نظام کے تحت اساتذہ کی تربیت (Training)کے کورس کا نام P.G.C.Eہے۔جو طلبا اس کورس میں داخل کئے جاتے ہیں انہیں باقاعدہ تنخواہ ملتی ہے اور کورس کی تکمیل کے ساتھ ملازمت کے دروازے بھی وا ہو جاتے ہیں۔ لیکن اس تربیتی کورس میں وہی داخلہ لے سکتے ہیں جو ملکی تعلیمی نصاب میں بی اے کر چکے ہوں اور برطانیہ میں اردو کی تعلیمO,Level سے آگے نہیں جاتی۔لہذا اردو کے تربیت یافتہ استاد تیار نہیں ہو رہے ۔اس کے برعکس ہو یہ رہا ہے کہ جب کہیں اردو کے استاد کی ضرورت ہوتی ہے تو P.G.C.Eکے تربیت یافتہ استاد کے مقابلے میں اردو پڑھے لکھے لوگ ،خواہ وہ برصغیر سے اردو میں ایم اے یا پی ایچ ڈی بھی کر کے آتے ہوں ،اس لیے اردو ٹیچر کی آسامی پر ملازمت حاصل نہیں کر سکتے کہ وہ تربیت یافتہ استاد یعنی(برطانیہ سے) P.G.C.Eنہیں ہیں ۔ P.G.C.Eمیں اردو کے ایم اے اور پی ایچ ڈی تعلیم یافتہ لوگوں کو داخلہ نہ ملنا ایک سوچی سمجھی سکیم کے تحت ہو رہا ہے تاکہ دھیرے دھیرے اردو کے استاد نابود ہو جائیں اور اردو پڑھانے کا موجودہ ڈھونگ ختم ہو جائے اور ایک پارسا اور وسیع القلب قوم انگریز اس اعلان کے ساتھ اردو کی تعلیم کو ختم کر دے کہ اردو کے استاد نہ ہونے کے سبب ایسا کیا جا رہا ہے ۔(۷)
سید عاشور کاظمی نے مستقبل میں اردو تعلیم وتدریس کے جس پہلو پر اپنے خوف کا اظہار کیا ہے ،برطانیہ میں اردو کی تدریسی صورتحال اورانگریزوں کا نسلی تعصب دیکھ کر اس پر یقین کرنے کو جی چاہتا ہے ۔خاص طو رپر سیون سیون کے حادثے کے بہت بعد تک اور بعض حالات میں آج بھی تارکین وطن کا ایک بڑا طبقہ اس بات پر پریشان ہے کہ مشرق اور مغرب میں بڑھتی ہوئی خلیج کہیں برطانیہ سے ان کے انخلا پر منتج نہ ہو ۔ اس صورتحال میں تارکین وطن کی پرانی نسل کے پاس تو پاکستان کی صورت میں اپنا ملک موجود ہے لیکن اس نسل کا کیا بنے گا جو برطانیہ میں پیدا ہوئی اور وہیں پلی بڑھی ہے ۔عاشور کاظمی کی بات میں اس لیے بھی وزن ہے کہ برطانیہ میں بی اے کی تعلیم اورینٹل سکول آف ایشین اینڈ افریقن لینگوئجزکے علاوہ شاید کہیں نہیں ہے ،اورو ہاں بھی محدود تعداد میں افراد مترجم بننے کے لیے اردو پڑھتے ہیں ۔ ان میں سے کتنے لوگ P.G.C.E کے کورس میں کامیاب ہو کر اردو کے استاد بننے کو تیار ہوں گے۔اسی طرح ویزے کی سخت پابندیوں کی وجہ سے بھی پاکستان سے ایم اے اردو یا پی ایچ ڈی اردو لوگ وہاں نہیں جا سکے اور کرونا کی موجودگی صورتحال میں تو اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
برمنگھم میں اردو کی استاد پروین ملک کا خیال ہے کہ شروع میں اردو کو لازمی مضمون کی حیثیت حاصل تھی اور اس وقت اس زبان کو پڑھنے والوں میں انگریز اور ایشین سبھی شامل ہوتے تھے اور اردو پڑھنے والے طلبہ بھی کثیر تعداد میں ہوتے تھے۔چند برس پہلے برطانوی حکومت نے اردو کی لازمی حیثیت ختم کر دی تھی اور اسے آپشنل مضمون کا درجہ دیا تھا۔اس کی وجہ سے اردو کا مضمون لینے والے طلبا میں نمایاں کمی واقع ہوئی تھی۔اب بھی زیادہ ترایشیائی طلبا ہی اردو پڑھتے ہیں۔ بعض ایسے انگریز بچے بھی اردو پڑھتے نظر آتے ہیں جن کے ا یشیائی کمیونٹی سے کسی نوعیت کے تعلقات ہوتے ہیں یا ان کے ذہن میں آگے چل کر مترجم بننے کا منصوبہ ہوتا ہے ۔اسی طرح جو ا یشیائی طلبہ فرنچ یا جرمن نہیں لینا چاہتے وہ بھی اردو کا مضمون لے لیتے ہیں۔(8)
مسز طلعت سلیم برطانیہ کی معروف افسانہ نگار اور شاعرہ ہیں۔وہ لکھتی ہیں کہ”سرکاری سکولوں میں اردو کے ابتدائی درجہ اور جی سی ایس ای لیول کے بعد اے لیول ہوتا ہے ۔اس کا پہلا سال اے ایس لیول اور دوسرا سال اے ۔2 ہوتا ہے جس کے بعد اے لیول کا سرٹیفکیٹ ملتا ہے ۔یونیورسٹی میں داخلہ کے خواہش مند طلبہ کو اے لیول اردو کرنے پرپوائنٹس ملتے ہیں جو یونیورسٹی میں داخلے کے لیے مددگار اور اردو کو مضمون کی حیثیت سے منتخب کرنے کا محرک بنتے ہیں۔ ساوتھ برمنگھم یونیورسٹی کالج میںBilingual Skill Certificate Of اور Diploma In Public Service interpretting(DPSI)کرواتے ہیں۔یہ ڈپلوما پا ک وہند کے ان گریجوئٹس کو کروایا جاتا ہے جن کا ارادہ مترجم بننے کا ہوتا ہے ۔(9)
محمود ہاشمی اے لیول اور او لیول کی تدریس کے چند مسائل کوبیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔
”اس وقت برطانیہ کے تعلیمی حلقوں میں مادری زبان اور اس ضمن میں تہذیبی زبان اردو کا چرچا تو بہت ہے لیکن اس کی جو عملی صورت ہے وہ اتنی خوش کن نہیں۔اردو میں او لیول اور اے لیول کے امتحانات تو ضرور ہوتے ہیں سکول کے آخری سال کے امتحان سرٹیفکیٹ آف سیکنڈری ایجوکیشن(سی۔ایس۔ای) کے لیے بعض جگہوں پر نصاب تیار کئے جا رہے ہیں ۔لیکن سچی بات یہ ہے کہ او لیول کے امتحان میں بیشتر وہ بچے پاس ہوتے ہیں،جن کی ابتدائی تعلیم پاکستان میں ہوئی تھی۔شاید یہی وجہ ہے کہ اب جبکہ پاکستان سے آنے والے بچوں کی تعداد کم ہو رہی ہے ،او لیول کا امتحان دینے والے بھی گھٹتے جا رہے ہیں۔جہاں تک اردو بولنے کا تعلق ہے ،او لیول میں امیدواروں کی اس صلاحیت کو پرکھنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔امتحان میں سب سے زیادہ اہمیت اردو سے انگریزی اور انگریزی سے اردو کے تراجم کو ہے ۔ چنانچہ سکولوںکی اردو کلاسز میں اردو کو انگریزی کے پہلو بہ پہلو چلنا پڑتا ہے ۔کلاس روم میں استاد لاکھ اردو بولے ،طلبا انگریزی بولیں گے یا زیادہ سے زیادہ انگریزی اور اردو کی ایک عجیب وغریب کھچڑی ہو گی۔مسجدوں اور دوسرے اسلامی مراکز کی اردو جماعتوں میں بھی یہی کیفیت نظر آتی ہے ۔استاد صاحب تو اردو بولتے سنائی دیتے ہیں لیکن طلبہ کی زبان پر انگریزی ہوتی ہے ۔“(10)
مقصود الہی شیخ کے رسالے ”مخزن 6 “ اور مخزن 9 میں شامل سروے میں وہاں کے سکولوں میں اردو کی تدریس کے متعلق دو سوال شامل کئے گئے تھے۔ مخزن 6 کے سروے میں یہ سوال پوچھا گیا کہ ”برطانیہ کے سکولوں میں اردو پڑھنے والے طلبا،اونچے(ثانوی)درجہ میں پہنچ کر اردو اختیاری(Optional) کامضمون چھوڑ کر کوئی دوسری یورپی زبان کیوں لے لیتے ہیں۔
برطانیہ کے سکولوں میں اردو کے طلبہ کی کم ہوتی ہوئی تعداد کی ایک وجہ ایک تواردو کا آپشنل ہونا ہے ۔ اس سوال کا جواب بہت سے افراد نے بڑی سنجیدگی سے دینے کی کوشش کی ہے۔ان آرا ¿ میںچند ایسی آرا ء بھی شامل ہیں جو ہمارے خیال میں اردو بولنے والی کمیونٹی کی سوچ کی نمائندگی کرتی ہیں اور برطانیہ میں اردو کی تدریس کو حائل مشکلات کو سمجھنے میں بھی معاون ہو سکتی ہیں۔
”مخزن “ 6 میں بریڈ فورڈ سے عبدالقدیر بیگ نے جواب دیا تھا کہ:
”رالف رسل کا خیال تھا کہ برطانیہ میں اردو پڑھانے والے اساتذہ زیادہ تر نالائق ہیں۔یہ بیان ان کے ذاتی مشاہدے پر مبنی تھا۔1980ءتک برطانیہ میں اردو پڑھانے والے اساتذہ کی تعداد واقعی زیادہ تھی جن کو نہ تو اردو سے کوئی لگاؤ تھا اور نہ ہی وہ اردو پڑھانے کی اہلیت اور صلاحیت رکھتے تھے۔ اردو کے علاوہ ان کے پا س دوسرے مضامین میں ڈگریاں تو ضرور تھیں مگر انگریز نسلی امتیاز پر ان کو ملازمت نہیں دیتے تھے۔ لہذا اردو نے ان کے لیے ملازمت کے دروازے تو کھول دیے۔ اس لیے نہ تو وہ معیاری طور پر اردو کی تدریس جاری رکھ سکے اور نہ ہی بچوں میں حصول اردو کا جمالیاتی ذوق پید اکر سکے ۔ برطانوی سکولوں میں ہزاروں کی تعداد میں جی سی ایس ای کرنے والے طلبا میں چند ہی اردو میں اے لیول کرنے کو تیار ہوتے ہیں جبکہ برطانیہ کی تمام یونیورسٹیز اردو کو وہی درجہ دیتی ہیں جو دوسری زبانوں کو حاصل ہے ۔حد تو یہ ہے کہ آکسفورڈ بھی اردو اے لیول کو تسلیم کرتی ہے ۔بدقسمتی سے اردو اساتذہ بچوں میں یہ شعور پیدا کرنے میں ناکام رہے ہیں کہ اردو کے مقابلے میں دوسرے مضامین میں اے لیول سخت دشوار ہے۔اکثر وہی بچے اردو ”اے لیول“ کرتے ہیں جن کی اردو کی بنیادی تعلیم پاکستان میں ہوئی ہو ۔بدقسمتی سے برطانیہ میں پرائمری سطح پر اردو کی تدریس کا کوئی بندوبست نہیں ہے ۔اس کے علاوہ اے لیول میں کامیاب ہونے کے بعد مقامی کالجوں یا یونیورسٹی میں ڈگری کی کوئی سہولت نہ ہونا بھی ایک وجہ ہے ۔(11)
عبدالقدیر بیگ نے مخزن 9میں شامل ایک سروے میں بھی ایک سوال کا جواب دیاتھا ان کے بقول:۔
”انگلستان میں ایسے باحوصلہ اور کشادہ دل انگریز بھی بستے ہیں جنہوں نے ایشیائی بچوں میں عزت نفس کی کمزوری کو محسوس کرتے ہوئے ان بچوں کی دلجوئی کے لیے انگلستان کے اسکولوں میں اردو کو سکول کے اوقات میں نافذ کرنے کے لیے تگ ودو کی اور بڑی حد تک وہ کامیاب ہوئے۔جن میں مسٹر کیتھو ٹامس،رچرڈ تھامسن اور رالف رسل کے نام خاص طور پر نمایاں ہیں ۔جب تک یہ لوگ عملی طور پر محکمہ تعلیم میں سرگرم رہے اردو کو زبردست عروج ملا۔ان کے جانے کے بعد محکمہ تعلیم ان جیسے باحوصلہ اور باہمت ماہرین تعلیم سے محروم رہا ۔اس لیے اردو کی تعلیم پھر بدحالی کا شکار ہو گئی۔اب صورتحال یہ ہے کہ جب اسکول میں اردو پڑھانے والے پرانے اساتذہ اپنی مدت ملازمت پوری کرنے کے بعد سبکدوش ہوتے ہیں تواس اسکول سے اردو کا خاتمہ ہو جاتا ہے ۔اس بارے میں ایک اور بات بھی قابل توجہ ہے کہ جب ایشیائی والدین اپنے بچوں کا ہندوستان یا پاکستان تعطیلات گزارنے کے لیے لے جاتے ہیں تو وہاں اردو کے ساتھ نازیبا سلوک دیکھ کر ان کی اردو کی تعلیم سے دلچسپی ختم ہو جاتی ہے اور وہ مایوس ہو کر اپنے بچوں کو اردو کے بجائے دوسری یورپین زبانوں کو سیکھنے کا مشورہ دیتے ہیں“(12)
برمنگھم سے ڈاکٹر رضیہ اسمٰعیل کا خیال ہےکہ”جو قومیں اپنے تہذیبی ورثوں کی شناخت نہیں کرتیں رفتہ رفتہ اپنی شناخت کھو دیتی ہیں۔ اپنی زبان وتہذیب کو آنے والی نسل میں منتقل کرنا ہماری ذمہ داری ہے مگر ہم یہ فریضہ بھی ٹھیک سے ادا نہیں کر رہے۔اس لیے ہمارے بچے گریڈ بنانے کی خاطر مرتے کیا نہ کرتے کے مصداق جی سی ایس ای تک تو اردو پڑھ لیتے ہیں مگر اونچے ثانوی درجوں میں یورپی زبانوں کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں۔“(13)
برمنگھم سے ڈاکٹر صبیحہ علوی کامؤقف ہے کہ:
” بچے اردو چھوڑ کر جرمن ،فرنچ ،اسپینش اس لیے لیتے ہیں کہ وہ بہت کام آتی ہے ۔میری اپنی بیٹی نے او لیول میں اسپینش ،جرمن وغیرہ لی تھی۔اردو میں نے خود پڑھائی تھی۔اردو اس کے کام نہ آئی۔پاکستان ،ہندوستان سے خالہ اور پھوپی کے بچوں کے خط انگلش میں آتے ہیں۔اسپینش اس کے بہت کام آرہی ہے۔ ڈگری کرنے کے بعد جرمن ٹی وی میں نوکری کی تلاش تک وہ بچوں کو اسپینش پڑھاتی رہی۔سکولوں کے تبادلہ میں جو بچے آتے ہیں ان کوتعلیمی ٹور پر لے جاتی ہے۔رقم کھلی ملتی ہے اور مفت کی تفریح بھی۔ٹورسٹ ڈیپارٹمنٹ اور ائر لائن میں مترجم بن کر پیسہ کمایا جا سکتا ہے ۔“(14)
برطانیہ کی معروف افسانہ نگار عطیہ خان کا کہنا ہے کہ
”برطانیہ کے سکولوں میں اردو پڑھنے والے بچے آگے چل کر اس لیے اردو نہیں پڑھتے کہ انہیں اردو سے کوئی دلچسپی نہیں۔ والدین کے دباؤسے یا اچھا گریڈ لانے کے لیے اردو ایک اختیاری مضمون کی طرح پڑھ لیتے ہیں“(15)
لندن سے بیرسٹر محمد رشید شیخ کا خیال ہے کہ
”جس جس شہر میں اور جیسے جیسے برطانیہ میں تارکینِ وطن کی اولادمیں اردو پڑھنے والے طلبہ کا اضافہ ہوتا گیا، اردو پڑھانے کا انتظام بھی وہاں کا محکمہ تعلیم کرنے لگااوراردو زبان ایک اختیاری مضمون کی طرح بچوں کو پڑھائی جانے لگی۔ ان شہروں میں سر فہرست ،لندن،برمنگھم،بریڈ فورڈ،مانچسٹر اور لیورپول وغیرہ شامل ہیں۔ میراذاتی تجربہ صرف لندن شہر کا ہے ۔ دوسرے شہروں کی معلومات باہمی ملاپ یا پھر پیشہ ورانہ ضرورت کے مطابق وہاں کے دوست احباب سے حاصل ہوتی رہتی ہیں۔لند ن میں طلبہ کی اکثریت وہایٹ کالر یا پروفیشنل جاب کرنے والے والدین کی رہی ہے ۔جن کا پس منظر اردو بولنے والوں کا تھا ۔ وہ اپنے بچوں سے اردو ہی میں بولتے تھے اور ان کی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا بیٹی اردو زبان لکھنا پڑھنا سیکھ لے ۔انگریزی زبان تو وہ کھیل کو د کے میدان یا سکول میں ہی سیکھ جائیں گے۔ برخلاف اس کے کہ جو لوگ محنت مزدوری کر کے پیسہ کمانے اور دکان لگا کر پیسہ بنانے میں لگ گئے تھے، ان کو برطانیہ میں آمد کے بعد انگریزی سیکھنے میں مشکل ہوئی۔ان کی پہلی خواہش یہ تھی کہ ان کی اولاد جلد از جلد انگریزی سیکھ لے تاکہ انہیں جو کمی تھی وہ پوری ہو جائے۔لہذا وہ اپنے بچوں کے اردو سیکھنے یا بطور مضمون لینے پر تیار نہ تھے۔یہ ان لوگوں کی ”سائیکی“ تھی۔ نیز چند ایسے شاعرو ادیب بھی میں نے دیکھے ہیں جو اپنی زباندانی یا نشہ کے زعم میں یا پھر غیر شعوری طور پر اپنے بچوں سے اردو بولنے سے پرہیز کرتے تھے۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے بچے سکولوں میں اردو بطور اختیاری مضمون لینے کو تیار نہ تھے۔مندرجہ بالا اسباب کے علاوہ ایک سب سے بڑا سبب تقسیم ہند کانزلہ بھی تھا جو کہ برطانیہ میں تارکین وطن پر گرا۔ یہ بات میرے علم میں ہے کہ حکومت ہند اور ہندوستانی سفارتخانہ بھی ہمیشہ اس بات پر زور دیتا رہتا تھا کہ اردو کوئی زبان نہیں بلکہ یہ” ہندوستانی “ہے اور اصلی زبان” ہندی “ہی ہے ۔چند سکولوں میں اردو پڑھانے پر مامور ایسے استاد بھی دیکھے گئے جو اردو لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے مگر ان کا تقرر بحیثیت اردو زبان کے استاد کا تھا ۔ مگر یہ باتیں اب قصہ پارینہ ہیں اور ماضی کے دھندلکوں میں گم ہوگئی ہیں۔ اب ہم یہاں دوسری تیسری نسل میں آگئے ہیں اور اکیسویں صدی کی ابتدا بھی ہو چکی ہے ۔ لہذا وقت کے ساتھ ساتھ ماحول اور حالات بھی بدل گئے ہیں۔ اکیسویں صدی کی ایک اصلی بات یہ ہے کہ چونکہ برطانیہ سیاسی اور قانونی طور پر اب یوپین یونین کا مکمل اور فعال ممبر بن چکا ہے جہاں سے ان کی واپسی تقریباً ناممکن ہے ۔اس یونین میں 72ممالک شامل ہیں اور یہ تعداد بڑھتی جا رہی ہے ۔ یونین کی ممبر شپ کی وجہ سے ان تمام ممالک کے شہری بلا کسی روک ٹوک کسی بھی ممبر ملک میں رہائش اختیار کر سکتے ہیں۔ان کی ملازمت،تجارت،ثقافت،سیاحت الغرض کسی بات پر کوئی بندش نہیں ہے اور ان ممبر ممالک کے شہریوں کی قدر وقیمت میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے ۔ قانونی طور پر کسی بھی ملک میں ان ممالک کے شہریوں کو وہی حقوق حاصل ہیں جو وہاں کے شہری کے ہیں ۔لہذا جہاں بھی اس بات کی سہولت ہو کہ آپ یورپی ممالک کی زبان کو اختیاری مضمون کے طور پر سیکھ سکتے ہیں تو پھر وہاں اردو زبان کو ایک اختیاری مضمون کی طرح پڑھنا یا لینا معاشی اصولوں کے خلاف ہوتا جاتا ہے ۔کیونکہ مستقبل میں یورپی زبان زیادہ سود مند نظر آتی ہے ۔اس میں ملازمت کے مواقع بھی زیادہ ہیں اور تجارت میں بھی فائدہ ہے ۔“(16)
برطانیہ کچھ عرصہ قبل سے یورپی یونین کا فعال ممبر نہیں ہے تو یورپی یونین سے انخلا کے اردو زبان بولنے والی کمیونٹی پر کیا اثرات مرتب ہو نگے اوراس سے برطانیہ میں اردو کی تدریس متاثر تو نہیں ہو گی۔کرونا سے متاثرہ حالات میں کسی طرح کی پیش گوئی قبل از وقت ہو گی لیکن یہ حقیقت ہے کہ چونکہ اردو زبان کی تعلیم سے کوئی ہنر ہاتھ نہیں آسکتا، اس لیےوہاں کے لوگ لازمی طور پر اس زبان کو چھوڑ کرایسے مضامین پڑھیں گے جن سے معاشی فوائد حاصل کرنے میں آسانی ہو سکے گی۔ امریکہ کے ایک مصنف ڈیوڈ بی بل نے اپنی کتاب”The Society Of Education And Work(17)میں ایک سوال اٹھایا ہے کہ تعلیم کو ہنر ہونا چاہیے یا نہیں ۔موجودہ دور میں تعلیم کے مادی نقطہ نظر کے پس منظر میں ،اس نے میٹروکریسی (Mertocracy)اور کریڈنشلزم (Credentialism) کے نام سے دو اصطلاحات کاذکر کیا ہے۔میٹرو کریسی سے مراد یہ ہے کہ دولت کے حصول کے لیے خاندانی شرافت و نجابت،قابلیت ،نسل اور جنس جیسی چیزیں بہت کم اہمیت رکھتی ہیں ۔اسی طرح آج کا آجر ،اجیر سے زیادہ سے زیادہ اسناد کا مطالبہ کرتا ہے اور یہ اسناد جتنے بڑے ادارے سے منسوب ہونگی،اجیر کی اہمیت اتنی زیادہ ہوگی۔یعنی آج کے دورکے معروف اداروں کی اسناد ہی سنہرے معاشی مستقبل کی ضمانت ہیں۔ڈیوڈ بل کے نزدیک آج کا طالب علم پرانے دور کے طالب علم کے مقابلے میں زیادہ مادیت پرست ہو چکا ہے اور مندرجہ بالا آرا سے ظاہر ہے کہ بہت سے والدین خود بھی اپنے بچوں کو اردو پڑھنے سے روک دیتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک اردو پڑھنے سے معاشی فوائدحاصل نہیں ہو سکتے۔
حوالہ جات
1۔باصر کاظمی،سروے ،”مخزن “9 مرتبہ مقصود الہی شیخ 2010ءص276
2۔محمود ہاشمی،”برطانیہ میں اردو کی تعلیم“(پمفلٹ)،اسلام آباد،مقتدرہ قومی زبان،1985ءص7
3۔ایضاً،ص8
4۔ایضاً، ص8
5۔ایضاً، ص11
6۔ایضاً، ص22
7۔سید عاشور کاظمی ،”بیسویں صدی کے اردو اخبارات و رسائل مغربی دنیا میں“ ،لندن ،انسٹی ٹیوٹ آف تھرڈ ورلڈ آرٹ اینڈ لٹریچر،2003ص86
۰۸۔پروین ملک(برمنگھم) سے فون پر کئے گئے سوال کا جواب
9۔طلعت سلیم کا خط، محررہ اکتوبر 2021ءمیرے پاس محفوظ ہے۔
10۔محمود ہاشمی،برطانیہ میں اردو زبان کی تعلیم،اسلام آباد،مقتدرہ قومی زبان،1985ص24
11۔عبدالقدیر بیگ (سروے) ”مخزن“ 6مرتبہ مقصود الہی شیخ2007ءص368
12۔عبدالقدیر بیگ (سروے) ”مخزن “9مرتبہ مقصود الہی شیخ2010ءص330
14۔رضیہ اسمٰعیل (سروے) ”مخزن“ 6مرتبہ مقصود الہی شیخ،2007ءص368
14۔ڈاکٹر صبیحہ علوی ،ایضاً، ص369
15۔عطیہ خان،ایضاً، ص371
16۔بیرسٹر محمد رشید شیخ ،ایضاً، ص373
17 ۔۔David B.Bills,”The Society Of Education And Work”,New York,Blackwell Publishers,2004
جمال شگری
جولائی 5, 2020ماشاءاللہ ❣️💓❤️ محترم اللہ پاک سلامت رکھے
آمین