شاعر: نوید فدا ستی
ہوا نہ مجھ سے کوئی ہم کلام گردش میں
دھواں ہوئے ہیں مرے صبح و شام گردش میں
یقین کر کہ تجھے گھومتے ملیں گے جہاں
تو جب کرے گا ذرا سا قیام گردش میں
خیال و خواب ہوا ہر زمانہءوحشت
اتر چکے ہیں سبھی خوش خرام گردش میں
میں بھاگتا ہوں سرِ دشتِ کربلا اور پھر
اضافہ کرتے ہیں آ کر امام گردش میں
مری طلب مری رفتار کے منافی ہے
میں خاص شخص ہوں رہتا ہوں عام گردش میں
پنپ رہا ہے کہیں دل میں شوقِ دید و شنید
دھڑک رہے ہیں زمانے مدام گردش میں
بدل بدل کے کئی ہاتھ حشر اٹھاتا ہے
بنا رہا ہے کوئی راہ جام گردش میں
خدا کا شکر ادا کرتا ہوں میں صبح و مسا
لبوں پہ رکھ کے درود و سلام گردش میں
بدلتا رہتا ہے چلنے سے میکدے کا نظام
کہ چل چلاو سے رہتا ہے جام گردش میں
رہِ فنا پہ قدم رکھ کے پھنس نہ جاوں کہیں
لگا رکھا ہے خدائی نے دام گردش میں
رکا ہوا ہوں میں اک گردشی جزیرے پر
گزر رہے ہیں مرے صبح و شام گردش میں
رکے ہوئے ہیں سبھی دوست کیوں فداؔ میرے
ملے گا ان کو یقیناً دوام گردش میں