شاعر : سید ظہیر کاظمی
خوشبوئیں رات کی رانی کے سوا کچھ بھی نہیں
تیرا کردار کہانی کے سوا کچھ بھی نہیں
زندہ رہنا ہے تو حالات سے لڑنا ہو گا
موجِ ادراک رو ا نی کے سوا کچھ بھی نہیں
تو مجھے اتنی سہولت سے فراموش نہ کر
میں تری یاد دہانی کے سوا کچھ بھی نہیں
میں نے کیا جانیے کس حال میں دیکھا تھا اسے
اب مری آنکھ میں پانی کے سوا کچھ بھی نہیں
یہ جو میں دیکھتا رہتا ہوں ظہیر اپنی طرف
میرے ماضی کی نشانی کے سوا کچھ بھی نہیں