شاعر: عرفان صدیقی
خرابہ تھا مگر ایسا نہیں تھا
عزیزو، میرا گھر ایسا نہیں تھا
اندھیرا تھا مری گلیوں میں لیکن
پسِ دیوار و در ایسا نہیں تھا
زمیں نامہرباں اتنی نہیں تھی
فلک حدِ نظر ایسا نہیں تھا
کوئی اُونچا نہیں اُڑتا تھا، پھر بھی
کوئی بے بال و پر ایسا نہیں تھا
قفس میں جس طرح چپ ہے یہ طائر
سرِ شاخِ شجر ایسا نہیں تھا
کوئی آزار تھا پہلے بھی دل کو
مگر اے چارہ گر، ایسا نہیں تھا
نہیں تھا میں بھی اتنا بے تعلق
کہ تو بھی بے خبر ایسا نہیں تھا
اس انجامِ سفر پر کیا بتاؤں
کہ آغازِ سفر ایسا نہیں تھا
مرے خوابوں کے دریا خشک ہوجائیں
نہیں‘ اے چشمِ تر‘ ایسا نہیں تھا
یہ آسودہ جو ہے‘ میری ہوس ہے
مرا سودائے سر ایسا نہیں تھا