Poetry غزل

غزل

شاعر: عرفان صدیقی

خرابہ تھا مگر ایسا نہیں تھا
عزیزو، میرا گھر ایسا نہیں تھا

اندھیرا تھا مری گلیوں میں لیکن
پسِ دیوار و در ایسا نہیں تھا

زمیں نامہرباں اتنی نہیں تھی
فلک حدِ نظر ایسا نہیں تھا

کوئی اُونچا نہیں اُڑتا تھا، پھر بھی
کوئی بے بال و پر ایسا نہیں تھا

قفس میں جس طرح چپ ہے یہ طائر
سرِ شاخِ شجر ایسا نہیں تھا

کوئی آزار تھا پہلے بھی دل کو
مگر اے چارہ گر، ایسا نہیں تھا

نہیں تھا میں بھی اتنا بے تعلق
کہ تو بھی بے خبر ایسا نہیں تھا

اس انجامِ سفر پر کیا بتاؤں
کہ آغازِ سفر ایسا نہیں تھا

مرے خوابوں کے دریا خشک ہوجائیں
نہیں‘ اے چشمِ تر‘ ایسا نہیں تھا

یہ آسودہ جو ہے‘ میری ہوس ہے
مرا سودائے سر ایسا نہیں تھا

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں