شاعر : نوید صادق
خود سے بہت خفا ہوں مَیں، خود سے بہت جدا تھا مَیں
دیکھا نہیں کہ کیا ہوں مَیں، سوچا نہیں کہ کیا تھا مَیں
ٹوٹ گیا ، بکھر گیا ، اپنے لیے تو مر گیا
تیری طرف تھا گام زن ، خود سے کٹا ہوا تھا مَیں
کیجے ملاحظہ ذرا ، دفترِ ماہ و سالِ دل
میرا اسیر تھا یہ دل، اس میں پڑا ہوا تھا مَیں
یاد نہ آ سکوں تو بول، زنگ پڑا دریچہ کھول
تیری گلی میں کون تھا، تیرے لبوں پہ کیا تھا مَیں
دیکھ، گلی میں کون ہے؟ کوئی نہیں ہے! آہٹیں!
سنتا ہوں، چند سال قبل، خود سے بچھڑ گیا تھا مَیں
شکوہ کروں تو کس کا مَیں، رنج کروں تو کیا کروں
کون سمجھ سکا مجھے، کس کو سمجھ سکا تھا مَیں
میرا ہی احتساب تھا، مَیں ہی تھا محتسب کہ رات
جرم عجیب ہو گیا، خود سے نکل گیا تھا مَیں
تو بھی خبر کی لہر میں بہتا چلا گیا نوید
تیرے لیے تو ٹھیک تھا، اپنے لیے برا تھا مَیں