شاعر: جلیل عالی
اُسے دل سے بھلا دینا ضروری ہو گیا ہے
یہ جھگڑا ہی مٹا دینا ضروری ہو گیا ہے
لہو برفاب کر دے گی تھکن یکسانیت کی
سو کچھ فتنے جگا دینا ضروری ہو گیا ہے
گرادے گھرکی دیواریں نہ شوریدہ سری میں
ہوا کو راستہ دینا ضروری ہو گیا ہے
بہت شب کے ہوا خواہوں کو اب کھَلنے لگے ہیں
دِیوں کی لَو گھٹا دینا ضروری ہو گیا ہے
بھرم جائے کہ جائے راہ پر آئے نہ آئے
اُسے سب کچھ بتا دینا ضروری ہو گیا ہے
مَیں کہتا ہوں کہ جاں حاضر کیے دیتا ہوں لیکن
وہ کہتے ہیں انا دینا ضروری ہو گیا ہے
یہ سر شانوں پہ اب اک بوجھ کی صورت ہے عالی
سرِ مقتل صدا دینا ضروری ہو گیا ہے