سلسہ جات

کُچھ کھٹی میٹھی یادیں (۵)


از: نیلما ناھید درانی
فلسطین کا سمیع اور بندیا کی دلدار بھٹی سے لڑائی۔
میں جب بھی ہوسٹل سے نکلتی مجھے ایک ہی خوف ھوتاکہ کہیں سمیع نہ دکھائی دے۔ان دنوں نیوکیمپس بوائز ھوسٹل نمبر 1، غیر ملکی طلبا اور گرلز ہوسٹل نمبر 1،غیر ملکی طالبات کے لیے مخصوص تھے۔
فلسطین، اردن، قطر، سعودی عرب، ایران اور افریقہ کے کئی ممالک کے طلبا و طالبات پنجاب یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے آتے تھےاور شام کو مال روڈ پر گوگو یا اکلوتے چائینز ریسٹورنٹ cathy کے ارد گرد دکھائی دیتے تھے۔
میں ہوسٹل نمبر ایک میں رھتی تھی جہاں زیادہ تعداد غیر ملکی طالبات کی تھی۔مجھے افریقہ کی خواتین بہت اچھی لگتی تھیں۔ان کے مضبوط قدوقامت اور گہری سیاہ بے داغ رنگت میرے لیے عجیب کشش رکھتی تھی۔
سمیع کا تعلق فلسطین سے تھا۔وہ ایک لحیم شحیم لڑکا تھا۔۔قدرے فربہی مائل جسامت لیکن اس کے سنہری بال ، سرخ اناروں جیسے گال اور چمکتی ہوئی ہلکی براون آنکھیں ایسی تھیں کہ اس کے چہرے پر نظر نہیں ٹکتی تھی ۔ لیکن میں اس سے ھمیشہ خوفزدہ رھتی کیونکہ مجھے دیکھتے ھی اس کے انداز بدل جاتے۔
وہ خواہ نہر کے دوسرے کنارے پر ھویا لوگوں میں گھرا ھوتا،نہایت والہانہ انداز میں میری طرف چل پڑتااور مجھے اپنی ساتھی لڑکیوں کے گروہ میں چھپنا پڑتا۔شادی کے بعد میں سسرال کے گھر شفٹ ہو گئی۔یونیورسٹی کبھی کبھار جاتی۔سمیع بھی کبھی دکھائی نہ دیا اور میں بھی اس کو بھول گئی۔
ایک دن دلدار بھٹی نے بتایا کہ بندیا نے اس سے زبردست لڑائی کی ھے۔میں نے پوچھاکہ لڑائی کی وجہ کیا تھی؟
اس نے کہا "میں نے صرف اتنا کہا تھا کہ یہ سمیع اتنا خوبصورت ھے تو اس کی بہن کتنی خوبصورت ھوگی۔۔۔”
اس پر بندیا نے کہا کہ” تم مرد لوگ اتنے خراب ھو کہ لڑکوں کو دیکھ کر ان کی بہنوں کے بارے میں سوچنے لگتے ھو۔۔”
دلدار بھٹی نے اس کو بہت سمجھایا کہ یہ بات صرف مذاق میں کہی ھےلیکن بندیا نہیں مانی۔
یہ سن کر مجھے سمیع کا چہرہ یاد آگیاجس پر مجھے دیکھتے ھی خوشی کے ھزاروں رنگ لہرانے لگتے تھے۔
٘پی ٹی وی کے میک اپ روم میں شام کو خوب رونق ھوتی۔ نیوز کاسٹرز ، اناونسرز پروگراموں کے اداکار جن کی ریکارڈنگ ھورہی ھوتی۔ سب جمع ھوتے تھے۔
خبرنامہ پڑھنے والے یاسمین واسطی، مہ پارہ زیدی، ظفر حسین اور ابصار عبدالعلی تھے جبکہ لوکل خبریں پڑھنے زاھدہ بٹ آتی تھیں۔
اسد امانت علی اپنی گھنی بھنویں کم کروا رھا ھوتاجن کو میک اپ آرٹسٹ محمد خان ” جن برو ” کہتا تھا۔ ان دنوں باریک بھنووں کا فیشن تھا۔
اسد امانت علی مجھے دیکھ کر کہتا۔”بس صرف دو لوگ ھی خوبصورت ھیں ۔ ایک میں اور دوسری میری بہن نیلما "
آغا سکندر ” وارث” ڈرامے کاھیرو جو گلوکار عنایت حسین بھٹی کا داماد تھا،وہ مجھے "نیلما قزلباش” کہتا۔شاید اس کو کسی قزلباش سے پتہ چلا ھو کہ میرے رشتہ داروں میں قزلباش بھی شامل ھیں۔
ثریا ، گوھر ، محمد خان اور میں لکشمی چوک سے بغدادی ثرید حلیم منگوا کر کھاتے یا طوبی کے نان چنے۔اس دوران جو بھی وھاں آ جاتا ۔۔ اس کو ھم اپنے ساتھ کھانے میں شریک کر لیتے۔
رفیق وڑائچ "محفل ” پروگرام ریکارڈ کرتے۔ جس میں ملک بھر سے گلوکار بلائے جاتے۔ کراچی سے عالمگیر اور پشاور سے مہ جبین قزلباش بھی اس پروگرام میں شرکت کرنے آئے تھے۔اس ایک پروگرام کی کمپیرنگ بھی میں نے کی۔ کئی گیت بھی لکھے۔ پروگرام کے موسیقار کریم شہاب الدین تھے۔ کئی بار وہ دُھن بنا چکے ھوتے،جن پر میں بول لکھ دیتی۔ان دنوں عدیم ھاشمی ٘پی ٹی وی کے مقبول ترین اور مشہور ترین شاعر تھے۔ان کی غزلیں سب مشہور گلوکار گا چکے تھے۔
      میرا سارا دن پولیس لائن میں گزرتا تھا۔ جہاں انسپکٹر نغمانہ زاھد سے روزانہ ملاقات ھوتی۔ نغمانہ بہت نفیس اور نستعلیق لڑکی تھی۔ اس کے بہت سارے رشتہ دار پی ٹی وی میں تھے۔ فضل کمال، نیر کمال، علیم پاشا، شاکر عزیر، زاھد عزیر اور فاروق ضمیر۔ نغمانہ ملتان سے آئی تھی اور اپنی والدہ کے ساتھ اسلامیہ پارک میں کرایے کے گھر میں رہ رھی تھی۔ وہ بہت فرض شناس تھی۔ دن بھر یونیفارم پہن کر رھتی بلکہ دفتر میں بھی کیپ نہیں اتارتی تھی۔اس طر ح شاید وہ خود کو مضبوط اور سخت مزاج پولیس آفیسر دکھانے کے لیے کرتی تھی جبکہ گھر جا کر وہ منی بیگم کی غزلیں سنتی جو اس کو بہت پسند تھی۔ ملتان جاتے ھوئے نرگس کے پھولوں کا گلدستہ لے کر جہاز پر سوار ھوتی۔ وہ بہت اچھی پولیس آفیسر تھی لیکن ایک بہت اچھی انسان بھی تھی۔
فرخندہ اقبال انسپکٹر کبھی کبھار پولیس لائین آتیں۔ان کی نزھت سلطانہ انسپکٹر سے دوستی تھی۔ دونوں کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق تھا ۔۔ وہ دونوں گورنمنٹ کالج میں کلاس فیلوز رھی تھیں اور فرخندہ ھی نزھت کو پولیس میں لانے کا سبب بنی تھی۔ فرخندہ کے آتے ھی ایک ھلچل سی مچ جاتی ،شور شرابا ھوتا،کسی کو پتہ نہ چلتا کہ کیا ھو رھا ھے اور اس شور شرابے کی کیا وجہ ھے۔
ایک دن اس نے ایس پی ھیڈ کوارٹرز سعادت اللہ خان سے کہا کہ ھمارے بہت مسائل ھیں،ان کو سنا جائے۔
اس وقت اے ایس پی محمد وسیم اور اے ایس پی جاوید۔۔پولیس لائن میں انڈر ٹریننگ تھے۔
سعادت اللہ خان نے ان دونوں سے کہا کہ سکول میں خواتین آفیسرز کی میٹنگ کر لیں اور ان کو رپورٹ دیں کہ کیا مسائل ھیں۔
اگلے روز سب خواتین پولیس آفیسرز سکول کے کلاس روم میں جمع ھوئیں۔ محمد وسیم اور جاوید نے سب کے مسائل سننا شروع کیے۔ کسی نے کچھ نہ کہا۔ میں بھی خاموشی سے سنتی رھی ، صرف فرخندہ بول رھی تھی۔۔۔۔”ھم بھی ٹی وی پر کام کرسکتے ھیں۔ میری آواز بہت اچھی ھے میں ٹی وی ہر گا سکتی ھوں۔۔۔۔”۔
لیکن آپ کا مسلہ کیا ھے ؟ ۔ اے ایس پی محمد وسیم نے پوچھا ،جس کا وہ کوئی جواب نہ دے سکیں۔
دونوں آفیسرز نے میٹنگ کی رپورٹ میں لکھا کہ کچھ خواتین آفیسرز ٹی وی والی آفیسر سے حسد کرتی ھیں اور جلتی ھیں۔۔۔۔۔
(جاری ھے)
نیلما ناھید درانی

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

آنسو سلسہ جات

آنسو ۔۔۔ پہلاورق : یونس خیال

  • جولائی 17, 2019
 مجھے ٹھیك سے یادنہیں كہ میں پہلی باركب رویاتھالیكن آنسووں كے ذائقےسے آشنائی دسمبر1971ء میں ہوئی۔عجیب لمحہ تھاایك بینڈ كے
آنسو خیال نامہ سلسہ جات

آنسو ۔۔۔ دوسراورق

  • جولائی 21, 2019
از: یونس خیال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  گزشتہ سے پیوستہ ’’ بڑا‘‘ہونے پر میرے پہلے ہمرازیہی آنسوتھے۔ میں نے بظاہرہنستے ہوئےجیناسیکھ لیاتھالیکن تنہائی