شاعر: اشرف نقوی
اِک لفظِ کُن کی بات سے پہلے بھی عشق تھا
یہ عشق کائنات سے پہلے بھی عشق تھا
روشن تھا اِک چراغ سرِ طاقِ عرشِ رب
خلقِ غمِ حیات سے پہلے بھی عشق تھا
جس وقت اِسم و جسم تھے تاریکیوں میں گُم
اُس تیرگی کی رات سے پہلے بھی عشق تھا
بے مثل و لازوال بہتر (72) ہیں اور بس
کہنے کو تو فرات سے پہلے بھی عشق تھا
اِک ہم ہی تو نہیں ہیں میاں ! عشق کے اسیر
میری تمھاری ذات سے پہلے بھی عشق تھا
لَوحِ ازل پہ لکھا گیا تھا بس ایک اسم
کاغذ ، قلم دوات سے پہلے بھی عشق تھا
اشرف مِری زمینِ محبت کا حکمران
کچھ تلخ حادثات سے پہلے بھی عشق تھا