از: خالد علیم
حلقۂ دل سے نکل، وقت کی فرہنگ میں کھل
اے مرے خواب! کسی عکس صدا رنگ میں کھل
اے مرے رہروِ جاں! کس نے کہا تھا تجھ کو
آنکھ سے دل میں اُتر‘ درد کے آہنگ میں کھل
اے مری خامشیِ کرب نما خود سے نکل
تجھ کوکھلنا ہے تودشمن کے دلِ تنگ میں کھل
اے لہو ہوتی ہوئی موجِ غم ہجر ذرا
خیمۂ خاک سے چل اوررگِ سنگ میں کھل
ایک لمحے کی پس و پیش بھی ہوتی ہے بہت
اب تو اے جذبۂ صد رنگ ! کسی رنگ میں کھل