Poetry غزل

شاہد ماکلی کی سال گرہ پر ان کی ایک غزل


شاہد ماکلی 
آبِ رواں پہ لکھتے ہو صحرا کا نام کیا
تم دینا چاہتے ہو ندی کو پیام کیا
غم کی ظروف سازی میں گزری ہے زندگی
ہم جانتے ہیں، شعلے سے لینا ہے کام کیا
ہم کیا تمھارے بوسہء لب کا بتائیں گے
گونگا کسی کے ساتھ کرے گا کلام کیا
کیا روشنی کے خواب بکھر جائیں گے مرے
مٹ جائے گا اُمید کا شمسی نظام کیا
کیا ڈھونڈنی پڑے گی کہیں اور زندگی
ممکن نہیں رہے گا زمیں پر قیام کیا
آخر ہم اُس کے دِل میں کہیں ہیں بھی یا نہیں
اِس کائنات میں ہے ہمارا مقام کیا
ہے ایک ہی تو اِسم ، جو ردّ ِ طلسم ہے
تیرے علاوہ وِرد کریں صبح و شام کیا
شاہد کبھی مجسّم اُسے سامنے بھی لاؤ
تصویری جھلکیوں سے چلاؤ گے کام کیا
شاہد ماکلی

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں