Poetry نظم

جُوتے


شاعر: افتخار بخاری
تپتی ریت پر ننگے پائوں چلنا
ایک قدیم فن ہے
جیسے بانسری پر گریہ کرنا
جیسے درد بھرا گیت لکھنا
جیسے محبت کرنا
ریت سے، بھوکا رہ کر
سراب سے، پیاسا ہوتے ہوئے
یہ فن نسل در نسل کی کمائی ہے
اِس کے پیچھے سفّاک صدیاں ہیں
ایک فن اور بھی ہے
جوتے بنانا
جوتے کیا ہوتے ہیں؟
تھر کے بچّو!
یہ چمڑے کے خول ہوتے ہی
شان دار پیروں کے لیے
اِن کے تلے تمہارے نصیب سسکتے ہیں
اِن کی قیمت تمہاری جھونپڑیوں سے زیادہ ہے
ریت پر قالین بچھتے ہیں
چمک دار جوتوں کے لیے
مگر ان میں ایک عیب ہے
ان کو پہن کر نیچے نہیں دیکھا جا سکتا
یہ آئینے بن جاتے ہیں
جن میں مُردار خور بھیانک
شکلیں نظر آتی ہیں

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی