شاعر: افتخار بخاری
جب میں چھوٹا تھا
دنیا میں بھیڑ نہیں تھی
میری آوارہ تنہائی
اپنی بے دھیانی میں
پٹڑی پٹڑی چلتی
ریل اسٹیشن آتی
دھوپ اور چھاوں کے بہتے ٹکڑوں میں
مِلی جُلی رونق اور ویرانی میں
اک دھندلا سا چائے خانہ
بُک اسٹال جہاں اک ہنس مُکھ بوڑھا
مجھے کتابیں پڑھنے دیتا
پلیٹ فارم کے بنچ پہ بیٹھ کے
اب دنیا میں بھیڑ بہت ہے
جانے وہ جگہیں اب کیسی ہوں گی
یا شاید اب ہوں ہی نہیں
اور وہ کتابیں بیچنے والا
مجھے یقین ہے
مر چکا ہوگا
پھر بھی
میں جاوں گا
اک دن
پٹڑی پٹڑی چلتے
بے دھیانی کے خطرے سے بے پروا
اور کچھ وقت اُداس رہوں گا
پلیٹ فارم کے بنچ پہ بیٹھ کے
اُس ہنس مُکھ بوڑھے کی یاد میں
جس سے پہلی باری
میں نے نام سنا تھا
ٹولسٹائی کا
محمد علی
اگست 22, 2019واہ!