Poetry نظم

پاوں سے لہو کو دھوڈالو


شاعر: فیض احمد فیض
ہم کیا کرتے کس رہ چلتے
ہر راہ میں کانٹے بکھرے تھے
ان رشتوں کے جو چھوٹ گئے
ان صدیوں کے یارانوں کے
جو اک اک کرکے ٹوٹ گئے
جس راہ چلے، جس سمت گئے
یوں پاؤں لہو لہان ہوئے
سب دیکھنے والے کہتے تھے
یہ کیسی ریت رچائی ہے
یہ مہندی کیوں لگائی ہے
وہ کہتے تھے، کیوں قحط وفا
کا ناحق چرچا کرتے ہو
پاؤں سے لہو کو دھو ڈالو
یہ راہیں جب اٹ جائیں گی
سو رستے ان سے پھوٹیں گے
تم دل کو سنبھالو جس میں ابھی
سو طرح کے نشتر ٹوٹیں گے

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی