Poetry غزل

غزل


شاعر: اسد اعوان
ہم قافلہء زیست سے آگے کہیں بھی تھے
وہم و گماں بھی پیش تھے لیکن یقیں بھی تھے
تجھ پر کہاں کھلا ہے کوئی عقدہء نظر
جو لوگ صرف تیرے تھے تیرے نہیں بھی تھے
باہر کی بستیوں میں فروکش تھے بد لحاظ
کچھ بد سرشت دل کے مکاں کے مکیں بھی تھے
فرقت کی سختیوں میں برابر تھے مضطرب
جلوت گزیں جو فرد تھے خلوت گزیں بھی تھے
دونوں کے اب خلاف ہیں کل تک یہاں جو لوگ
تیرے قریں بھی ہوتے تھے میرے قریں بھی تھے
میلے لباس چاند سے چہروں کے جسم پر
محنت کشوں کے بیچ کئی مرمریں بھی تھے
دونوں نے دونوں ہاتھوں سے لوٹا ہمیں اسد
پردہ نشیں بھی تھے کئی مسند نشیں بھی تھے
اسد اعوان

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں