شاعر: کاشف رحمان خاں
نظر کی حد پہ چراغ ثبات جلتا ہے
مرا سراب مرے ساتھ ساتھ چلتا ہے
میں ایک وصل کا ٹُوٹا ہُوا ستارہ ہوں
فراق روز مرا زائچہ بدلتا ہے
ضرور کوئی پرندہ اسیر ہے مُجھ میں
یہ دل جونوبت پرواز کو مچلتا ہے
میں جب بھی خُود سے ملاقات کے لیے پہنچوں
تو ملنے والا کوئی اور ہی نکلتا ہے
میں مر چُکا ہُوں کسی خواب رفتگاں میں کہیں
مرے وجود میں مہر قدیم ڈھلتا ہے
ہو اُس سے کوئی شکایت مُجھے بھلا کیسے
بچھڑ کے وہ بھی تاسف سے ہاتھ ملتا ہے
ہے آئینہ بھی مرے شمعداں کے پاس کوئی
وگرنہ ایسے مرا موم کب پگھلتا ہے
نجانے کس کی جُدائی کا خوف ہے کاشف
کہ کھُل کے سامنے آتا ہے اور نہ ٹلتا ہے