شاعرہ : نیلم ملک
زمیں کا گُھومنا جِس پَل تَھمے گا
تبھی رقصِ تمنّا بھی رُکے گا
فریبِ یک نظر، تیرا نہ ہونا
تدبّر سے مگر ہونا کُھلے گا
خُدا کا مسئلہ حل کر رہے ہیں
خُدائی کا ابھی اُلجھا رہے گا
ابھی جاری ہُوا لفظوں کا چَشمہ
نہیں معلوم کِس جانب بہے گا
تبھی منظور ہو گا اس میں رہنا
مری شرطوں پہ جب کمرہ سجے گا
بھرے گی سُرخ سیبوں سے وہ دامن
جب اُس پر سبز دروازہ کُھلے گا
نیلم ملک