نظم

ہمارا المیہ یہ ہے : یوسف خالد

ہمارا المیہ یہ ہے
ہم اک ایسے خطِ تقسیم پر محو سفر ہیں
جس کے اک جانب
گھنے برگد تھے
کچے راستے تھے
کچے گھر تھے
ہوا میں کچی کلیوں کی مہک تھی
دور تک پھیلی ہوئی سرسوں تھی
چرواہے تھے ریوڑ تھے
پرندوں کی حسیں ڈاریں تھیں
ڈیرے داریاں تھیں
ڈھولے ماہیے تھے
بہر سو زندگی تھی
زندگی کا ہر حوالہ تھا
مگر اس رہگزر کی دوسری جانب
مسلسل شور ہے
رفتار ہے
ہنگامہ خیزی ہے
عجب بے اطمینانی ہے
ہوا میلی ہے بد بو سے بھری ہے
دھوئیں کی ایک چادر ہے
جو زیر آسماں بے انت پھیلی ہے
یہاں کے موسموں میں بھی بلا کی شدتیں ہیں
زہر ناکی ہے
یہاں پر موت ارزاں ہے
ہر اک ذی روح لرزاں ہے
یہ منظر خوف کا منظر ہے
اس میں زندگی ناپید ہے
بس زندگی کی ایک مصنوعی سی صورت ہے
جسے سب اوڑھ کر
اندھے سفر پر گامزن ہیں
ہمارا المیہ یہ ہے
کہ ہم اس دوڑ میں آگے ہی آگے بڑھتے جاتے ہیں
نہ رکتے ہیں نہ ہم پیچھے پلٹ کر دیکھتے ہیں
ہمیں یہ خوف ہے کہ رک گئے تو کچلے جائیں گے
کہیں برگد نہیں
جس کی گھنی چھاؤں میں دم لے لیں
نہ کچے راستے ،نہ دور تک پھیلی ہوئی سرسوں
نہ چرواہے نہ ریوڑ ہیں
فقط بے اطمینانی ہے
کہ ہم سے زندگی روٹھی ہوئی ہے

younus khayyal

About Author

1 Comment

  1. younus khayyal

    مئی 10, 2020

    یوسف خالد نظم کا بہت عمدہ تخلیقارہے ۔ وہ گزرے ’’ کل ‘‘ اور ’’ آج ‘‘ کے درمیان تپنتے پُل پرکھڑاان یادوں کوآوازیں دیتا دکھائی دیتاہے جہاں سکون ہی سکون تھا، چین ہی چین اورپھرلفظی تصویریں بناکرآنے والے ’’ کل ‘‘کی خوف ناکیوں سے پمیں آگاہ بھی کرتاہے ۔۔۔۔۔ کیا پُل پر کھڑاہوکراس نے خود آنے والے کل کی طرف جانے کا سفر وقتی طورپر روک رکھاہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’ پمارا المیہ یہ ہے ‘‘ دیکھئے ذرا !

younus khayyal کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی