ڈاکٹراسحاق وردگ
اردو والے مجھے
پشتون سمجھ کر قریب
نہیں آنے دیتے۔۔
جس طرح میر صاحب
نے لکھنؤ جاتے ہوئے
بیل گاڑی والے
کو منہ نہیں لگایا تھا۔۔
میری مادری زبان والے
مجھے مادری زبان کے ادب کا
بھگوڑا سمجھ کر
دھتکارتے ہیں
کہ تم اردو کی آشنائی میں
مادری زبان کو بے ردا کرکے بھاگ
گئے تھے۔۔
یہ دلچسپ اور مسکراتا ہوا
المیہ دور ایک جزیرے پر
میں اور میری محبوبہ مسکراتے ہوئے
دیکھتے ہیں۔
یہ مسکراہٹ تب دوبالا ہوتی ہے
جب اس میں آبشاروں کی
حیرت گرتی ہے
چاند کا عکس ڈوبتا ہے
رات کے پھولوں کی خوشبو
قیام کرتی ہے
سمندر کنارے کی مچھلیاں سلام کرتی ہیں۔۔
ہاں وہی محبوبہ میری اردو شاعری
جس سے وفا نبھانے کے لیے
مجھے دوسرا جنم پشاور میں لینا پڑا ہے
مجھے یاد ہے
پہلے جنم میں
ہندستان کے دل
دہلی کے قریب گاؤں میں
ایک حملہ آور لشکر کے
ہاتھوں میری جوانی کا چراغ
بجھ گیا تھا۔۔
یہ رتجگے کے بعد کا دن تھا
جب جوانی کی دہلیز پر
اردو شاعری میری محبوبہ بنی تھی
مرتے وقت میرے ہاتھ میں پہلی غزل
تھی۔۔اور چہرے پر آخری مسکراہٹ
لشکر کے جرنیل
نے فوجی علم
سرنگوں کرنے کا حکم دیا تھا
یہ دوسرا جنم ہے
میری روح اور جسم
ایک پیج پر ہیں
اور دونوں نے ورق دل پر نقش
اس تحریر پر دستخط کر رکھے ہیں
کہ میں مادری زبان کی محبت بھول سکتا ہوں
بے وفائی کے طعنے کا بوجھ اٹھا سکتا ہوں
لیکن۔۔لیکن۔۔۔ہاں
پہلے جنم کی محبت نہیں بھول سکتا۔۔