تنقید

علی محمد فرشی کی طویل نظم: علینہ: نئی اوڈیسی ۔۔۔ محمدحمید شاہد

محمد حمید شاہد
محمدحمید شاہد
علی محمد فرشی کی طویل نظم "علینہ” جب ٹکڑے ٹکڑے سامنے آ رہی تھی، وقفے وقفے سے اور اپنے لئے مخصوص عنوانات پا کر، تو یوں لگتا تھا یہ عشق مزاج نظمو ں کا ایک سلسلہ سا ہے، الگ الگ اور مکمل۔ تاہم ہر نظم پہلی سے ذرا فاصلے پر۔
وہاں شام کا جھٹپٹا ہوتا ۔۔۔ یہاں ٹپیکل دوپہر۔۔۔ ادھر کل کی سیاہی ۔۔۔ اور ادھر آج کا چمکتا پُل ۔۔۔
اور "علینہ” یہاں وہاں اپنا مقام بدلتی نظر آتی۔
کبھی کبھی یوں لگتا کہ "علینہ” آسمانوں کی وسعتوں میں نور کی طرح پھیلی ہوئی ہے اور کبھی یوں کہ جیسے اس سیماب صفت کا قافلہ ہمارے اپنے قرب ہی میں بہتے سوال اور ٹھہر کر تعفن پھیلانے والے لئی کے کنارے پڑا ڈالے ہوئے ہے۔
خدا لگتی کہوں تو ماجرا یوں ہے کہ میں ایک مرحلے پر اس گماں سے بھی گزرا تھا، ہو نہ ہو نظم کی تخلیق کا یہ تجربہ اپنی نہاد میں ٹی ایس ایلیٹ کی "دی ویسٹ لینڈ”کے زیر اثر ہو رہا ہے۔ نظم کا ایک سمت بہے جانا، خارج کی ٹھوس اور کھردری زندگی کے نقوش ابھارتے ہوئے اور اپنے پہلو میں حسی، جمالیاتی اور معنوی جہات کے مقدس اسرار کا دھند بھرا منظر بناتے ہوئے۔ جب درمیان میں ہی کہیں فرشی نے نظموں کے اس سلسلے کو ایک مسلسل نظم کے حصے کہنا شروع کیا تو مجھے وہ عنوانات الجھاتے تھے جو اس نے "ویسٹ لینڈ” کی طرح نظم کے ہر ٹکڑے پر قائم کر دیئے تھے۔ فرشی کی "علینہ” صحرا کے منظر پر کھلی، ایلیٹ کے "خرابے کی پہلی چند سطروں میں بھی مردہ زمین، بے حس اور سوکھی ہوئی جڑوں کا ذکر ہوتا ہے اور اس پتھر کا بھی جس میں پانی کی کوئی صدا نہیں گونجتی۔ فرشی کی نظم میں مذہبی احساس جھلک دینے لگا تو ایلیٹ پھر یاد آ یا۔ "Four Quarters” والا اور "ویسٹ لینڈ” والا بھی۔ایک میں بقول مظفر علی سید، خدا سے کچھ پانے کے احساس کے سبب اس کے ہاں انکسار اور submission آ گیا تھا اور دوسری کا معاملہ یہ ہے کہ میں مذہبی احساس کی قوت سے کم از کم جس طرح کی توانائی پانے کی توقع رکھتا ہوں وہ بھی خرابے کی وسعت کا حصہ ہو گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ میرا اس طرف دھیان ہی نہ جاتا تھا کہ فرشی اس احساس سے گوئی قوت بھی پا سکتا تھا۔
حیف کہ عجلت میں آدمی کیسے کیسے گمان باندھ بیٹھتا ہے۔ بے شک ایسے گمانوں کا کچھ نہ کچھ محرک یا جواز تو ہوتا ہی ہو گا۔ ایسے ہی کہ جیسے "ویسٹ لینڈ” کے کچھ حصوں کو الگ کر کے اسے جنسی محبت اور ذہنی و جسمانی نامرادی کی نظم قرار دے ڈالنے والوں کے پاس بھی ایک جواز تھا۔ تاہم تخلیقی سچ تک پہنچنے کا یہ قرینہ نہیں ہے۔ مغالطوں کی عمر لمبی نہیں ہوتی، ٹکڑے کل کا جزو تو ہوتے ہیں، کُل کا متبادل نہیں ہو سکتے۔ یہی سبب ہے کہ "علینہ” نے میرے ہاں جو ٹکڑوں کی صورت تصویر بنائی تھی، اس نظم کی تکمیل کے ساتھ ہی وہ تحلیل ہو گئی۔ اب ایک اجلا، روشن اور ماورائی پیکر میرے سامنے ہے۔ "علینہ” کا یہ ما بعد الطبیعاتی کردار پوری نظم میں کہیں بھی اپنے عالی منصب سے سبکدوش نہیں ہوتا۔
آخر "علینہ” ہی کیوں؟ سلمیٰ، سلیمہ، زرینہ اور سفینہ کیوں نہیں؟ جب تک "علینہ” مکمل صورت میں سامنے نہ آئی تھی مجھے اس سوال میں کوئی عیب محسوس نہ ہوتا تھا کہ سبع معلقہ کے ایک شاعر امراء اُلقیس نے اپنے قصیدے کو عنیزہ کے لقب سے معروف اپنی عم زاد اور محبوبہ "فاطمہ”کو "افاطم” کے تخاطب سے شروع کرتے ہوئے کہا تھا۔ "اے فاطمہ کج ادائیوں سے حذر کر، اگر تو نے مجھ سے جدا ہونے کا قصد کر ہی لیا ہے تو اس کے لیے کوئی دلکش انداز اپنا۔” یہاں "فاطمہ” نہ ہوتی تو امراء القیس کو کوئی بھی اور عورت مل سکتی تھی، اور اسے تو ملی بھی تھیں، تبھی تو اس کے قصیدے میں بدن کستوری سے خوشبو کی لپٹیں اٹھانے والی "ام الحویرث” اور اس جیسی حسینہ قبیلہ طے کی شاخ بنی۔ ینہان والی "ام الرباب” در آئی تھیں۔ اختر شیرانی کی "سلمیٰ” ہو یا ن م راشد کی "جہاں زاد” اور مصطفی زیدی کی "شہناز” سب ہی کا معاملہ ایک سا ہے۔ میونخ سے "شالاط” کے بجائے کوئی اور آ جاتی تو اس کی کیا ضمانت تھی کہ اس پر مجید امجد کی نظم اور اس کے دل کے دروازے بند رہتے۔ عورتوں کے نام لے لے کر نظمیں لکھنا اور نسوانی ناموں کو عنوان بنا لینا ہماری شعری روایت میں ایک عمومی سا رویہ رہا ہے۔ فرشی اگر اس روایت کو نبھاتا تو اپنی پسند اور سہولت کا کوئی بھی نام استعمال کر سکتا تھا۔ مگر اب کہ جب میں اس نظم سے پوری طرح گزر چکا ہوں یہ سوال میرے لیے سرے سے ہی لا یعنی، غیر متعلق
اور بے ہودہ ہو گیا ہے۔ نظم اس سوال سے کہیں اوپر اٹھ کر بہت بڑے سوالات اٹھانے لگی ہے اور "علینہ” کا اسم ان سوالات کے تقدس اور گمبھیر تا کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔
میں نے "علینہ” کو سمجھنے کے لئے اسے شاعر کے نام سے جوڑا تو یوں لگا جیسے "علی” کی تکمیلی صورت "علینہ” ہو گئی ہے۔ اب جو دیکھتا ہوں تو علی فرشِ زمیں میں آدھا دھنسا "علی” اور "نہ” کو جوڑنے کے جتن کرتا دِکھتا ہے اور اوپر فلک کے کناروں سے "علینہ” کا وجود چھلک رہا ہے۔
عربی قواعد کے مطابق کسی اسم کے آخر میں "ہ” کا ورود ہو تو وہ مونث قرار پاتا ہے۔ اب اسم ذات "اﷲ” پر غور کریں کہ اس کے آخر میں بھی تو "ہ” ہے۔ تاہم اس ذاتِ اولیٰ کا جلال ایسا با کمال ہے کہ تانیث کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ علی محمد فرشی نے جزو ہو کر کل کی جس شناخت سے تخلیقی رشتہ جوڑا ہے وہ اپنے کامل وجود میں ہیبت کی وہ لپک نہیں رکھتا جو دلوں تک بھڑکتے شعلوں کی آنچ پہنچاتا ہے۔ اس مقدس اور ماورائی کردار میں فقط نرمگیں جمال ہی جمال ہے۔ یوں اس کے کومل نام اور روشن بدن پر اپنے لئے پکارے گئے اسمِ ذات کا تانیثی پیرہن سج جاتا ہے۔
دیکھئے ۔۔۔ نام کے اس عقدے کو ایک اور طرح سے بھی سلجھایا جا سکتا ہے۔ وہ یوں کہ "علینہ” کے حروف کو وہ اعداد دے دیجئے جو علم الاعداد میں ان کے نام لکھے جا چکے ہیں۔ اس اسم کا ایک مفرد عدد حاصل ہو گا "3۔” یہی مفرد عدد "اﷲ” کا بھی ہے۔ کیا یہ سارے اشارے "علینہ” کے ما بعد الطبیعاتی وجود پر دال نہیں ہیں؟
ساقی فاروقی نے اپنے ایک مضمون میں "The Human Condition” جیسی "ہولناک کتاب” سے اپنی یادداشت کے بل بوتے پر حوالہ نقل کرتے ہوئے آدمی کو چار سطحوں پر مجاہدے سے دوچار دکھایا تھا۔ پہلی سطح وہ ہے جسے Labour کہتے ہیں۔ زندگی قائم رکھنے اور آسانیوں کے حصول کے لئے محنت۔ دوسری سطح Making کہلائی۔ پہلی میں اگر روٹی کی طلب میں درانتی چلانے والا آتا ہے تو دوسری میں دستکار اور کاریگر۔ تیسری سطح Activity کی ہے، وہی جو سیاست دانوں، فوجیوں اور سائنس دانوں کے حصے میں آتی ہے، جبکہ مجاہدے کی ارفع سطح وہ ہے جو Contemplation کہلاتی ہے، فلسفیوں، صوفیوں اور تخلیق کاروں کا وصف۔ فرشی کی "علینہ” اسی مراقبے میں در آنے والے ارفع سچ کے بھیدوں بھرے پانیوں پر منعکس ہے۔ پانیو ں کا وجود بے کنار وقت کی وسعتوں میں پھیلتا جا رہا ہے، یوں کہ وقت کے معلوم کنگرے اس میں ڈوب گئے ہیں۔ اس طرح دیکھیں تو "علینہ” کا تخلیقی تجربہ نہ تو محض Poetic Labour ہے، نہ فقط Poem making کی کاریگری اور نہ ہی سماجی سطح پر شاعرانہ سرگرمی کہ یہ اس علاقے کی کہانی ہے جس میں سچے تخلیق کار اپنے زندہ لفظوں اور گہرے شعور کے سا تھ ہی داخل ہو سکتے ہیں۔ اسی گہرے اور ہمہ جہت شعور نے اسے زمان و مکان کی نئی معنویت کے مقابل کر دیا ہے۔
چوبیس اجزاء (دیباچہ +23 مناظر) اور 999 مصرعوں پر مشتمل یہ طویل نظم اپنے patternک ے اعتبار سے "علینہ” سے مخاطبہ ہے، جزو کا کُل سے تخاطب۔ "علینہ” نظم میں یوں آئی ہے کہ اس کی آنکھوں میں آسمانوں کی وسعت سما گئی ہے۔ اس کی برجیوں تلے زمانہ دست بستہ کھڑا ہے۔ سب اس کے نقرئی اسم کا ورد کرتے ہیں۔ اس کی تجلی بھری لاٹ کو دیکھنے کے لئے زمانے زمین بوس ہیں اور جھکی ہوئی کائناتوں کی گردشیں تھم تھم گئی ہیں۔ تاہم اس نظم کے چوتھے منظر میں وہ مقام بھی آتا ہے کہ عسکری کی بات یاد آتی ہے۔۔۔
آگے کیسے بڑھوں کہ پہلے عسکری کی بات بتانی ہے اور وہ یوں کہ ایک مرتبہ اس نے مولانا روم کا وہ شعر پڑھا تھا جو”من ز تن عریاں ۔۔۔ "سے شروع ہوتا ہے اور ساتھ ہی یہ سوال بھی کیا تھا کہ”کون عریاں ہوا۔۔۔ اور”۔۔۔ او از خیال”میں خدا جو کپڑے پہنے ہوئے تھا، وہ خیال کس کا تھا۔جواب دیا گیا "انسان کا۔”محمد حسن عسکری نے ترت کہا تھا”انسان ہی کا ہوا نا”تو صاحب، یہی paradoxتو آدمی کے اندر ہے، لباس بھی دیتا ہے اور نہاں بھی دیکھتا ہے۔۔۔ اور ہاں بات چوتھے منظر کی ہو رہی تھی اور عسکری یوں یاد آیا تھا کہ اس منظر میں ایسا مرحلہ آگیا تھا جب ازل اور ابد کے کہیں وسط میں چند لمحوں کے لئے چمکنے والے نے”علینہ”کے سارے حجروں کو منور کر دیا تھا۔بائیسویں منظر کی ایک منزل کی بھی یہی منزلت ہے کہ اس میں ایک موہوم امید الوہی غرفوں میں سوئی ہوئی نیند بھری ساعتوں کو خوابوں سے بیدار ہونے کی خوشبو عطا کر دیتی ہے۔
"علینہ”کا ما بعد اطبیعیاتی وجود اور”میں "کا یہی زمینی کردار نظم کے شروع سے آخر تک ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔”میں”ایک دو مقامات پر "علیزے” ہو گیا ہے۔شاعر کے اپنے نام کے صوتی منبع سے پھوٹنے والے یہ دونوں اسماء نظم کے کینوس کو کائنات کی سی وسعت عطا کر دیتے ہیں۔
شاعر کی اپنی ذات "علینہ” کے ماورائی کردار سے امید کے ایک مضبوط رشتے میں گندھی ہوئی ہے۔اس کے دل سے "علینہ” کی کائناتوں کے اجڑے ہوئے قافلے گزرتے ہیں۔یہ صلصال کے سلسلوں سے جڑا ہوا ہے اور گرد میں ڈوبے ہوئے اس زمانے جیسا ہے جسے زرد ذروں کی آندھیوں سے باہر نکلنے کا اسم بھول چکا ہے۔جہاں جہاں "علیزے”آیا ہے وہ "میں” کے کردار کا شوخ مظہر بن گیا ہے۔شوخی کی دھج دیکھیئے کے وہ "علینہ” کی الماری سے خوبصورت دنوں کا راز چرا لیتا ہے۔
نظم کے کردار امیجز اور سمبلز میں معجزاتی نشانیاں بن کر وجود پذیر ہوتے ہیں۔یہ نشانیاں زندگی کے نامعلوم علاقوں کو اجالے چلی جاتی ہیں۔کہیں تو وقت کا محدود تصور، لامحدود تصور سے پسپا ہوتا ہے اور کہیں مکان کی قید سے زمانہ آزاد ہو جاتا ہے۔کہیں ہونے کا کرب نہ ہونے کی معرفت سے مصافحہ کرتا ہے اور کہیں دنی دنیا سے اوپر اٹھ کر اپنے وجود کو دائمی بقا کے ازلی نو ر سے اجالنے کی تمنا سارے زمانوں پر محیط ہو جاتی ہے۔
"علینہ” میں کچھ اور کردار بھی وقفے وقفے سے طلوع ہوتے ہیں اور ایک نئی معنویت کا استعارہ بن کر مجموعی منظر نامے کا حصہ ہو جاتے ہیں۔ان ہی میں سے ایک سدھا رتھ ہے، وہی جو زمینی کشش سے نکل کر زمانے کے زینے روشن ہو گیا تھا۔ایک اور کردار یشودھا کا بھی ہے جو حقیقی اور زمینی ہے۔تاہم اس کی راتوں میں پھیلی سرد تنہائی کو شاعر نے یوں اجال دیا ہے کہ سدھا رتھ کی ساری ریاضت اس کے درد سینے میں ڈوب گئی ہے۔اس نظم میں ابن مریم کی پوروں سے بیمار جسموں کا دکھ محسوس کرنے والی نرسیں بھی ہیں اور وہ دق زدہ لڑکیاں بھی جن کے لئے مائرن کی ننھی سی ٹکیا ایسی گلابی پری بن جاتی ہے جو زندگی کی سانسوں سے چھاتیوں کو لبالب کر دیتی ہے۔
خمینی خمینی کی تکرار کرنے والی خلقت ہو یا اپنی بغلوں میں اسناد کی ردی دبائے منتظر نوجوان اور پنشن کی کاپیوں کے خالی خانوں میں خواہشوں کا ماہانہ اندراج کرانے والی بیوائیں، سبھی ایک لا متناہی دکھ کی عجیب کہانی سناتے ہیں، ایسا دکھ جو اس محدود زمان و مکاں کی آلائش سے جڑے رہنے کے سبب اس دھرتی کے باسیوں کا مقدر ہو گیا ہے۔اسی محدود انسانی فکری کارکردگی کی وجہ سے مشینی دماغوں سے روندنے کچلنے والے روبوٹ نکل آئے ہیں۔خلائی شٹل اور اڑن طشتریوں سے ایٹمی روشنیوں کے جھماکے میں سیاہ موت برسنے لگی ہے۔آدم کی دائمی روایت سے منسلک "علیزے” نے جو روشن دنوں کے راز "علینہ” کی الماری سے چرائے تھے اسے مغربی ساحروں نے تباہ کن ایٹمی موت سے بدل دیا ہے۔ان بدوؤں کو جن کے پاؤں تلے تیل کی نہریں رواں ہیں بے خبر ہیں کہ بازار میں زندگی کس بھاؤ بک رہی ہے۔ڈالروں کی بانجھ توانائی نے ایک مفلوج اور فاقہ زدہ عہد کو جنم دے دیا ہے، اور یہ ایسا عہد ہے جس میں نالیوں کے کناروں پر گن گن کر جیون کے قطرے بہانے والے ایک نئے سورج کی تمنا بھی رکھتے ہیں۔
یہ تمنا "علینہ” کے روشن وجود سے جڑی ہوئی ہے۔
پکارنے والے "علینہ، علینہ”۔۔۔ "علینا، علینا”۔۔۔۔۔۔ "علی نہ، علی نہ” اور ایلی، ایلی” کی صدا لگاتے ہوئے اپنی تصدیق کے گنجلکے چیستان سے باہر نکلنے کا راستہ تلاش کر رہے ہیں۔
اسی تلاش پر یہ نظم اپنی تکمیلیت کو چھو لیتی ہے، یوں کہ امیجز اور سمبلز کا ایک روشن سلسلہ لطف و آگہی اور سرشاری سے ہمکنار کر دیتا ہے۔مرمریں برجیاں، نقرئی اسم، سرخ بوسے، سرد اقرار، درد کی نیلگوں راکھ، دیدار کی شربتی دھوپ، شش دری ممٹیاں، سونے چاندی کی دو روٹیاں، بھوک کے بگولے، زیر آب تیرتی مرگ مچھلیاں، گرد سے گل میں تبدیل ہونے کی تمنا، گھنی گاڑھی سیاہی، کم خواب گھاٹیاں، لفظوں کی صندل خوشبو، سوت کی انٹی میں تلنا، دردیلے دن، الو ہی الاؤ، گلابی تجلی، نیندوں بھری ساعتیں ۔۔۔ ۔۔۔ میں لکھتا جا رہا ہوں اور فرشی کی نئی بوطیقا "علینہ”کے بھید مجھ پر کھولتی چلی جاتی ہے۔
نطشے کے بقول ہر شخص اپنے اسلوب سے پہچانا جاتا ہے۔فرشی نے اپنے اسلوب کی اساس دانشورانہ جدوجہد کے بجائے داخلی تجربے سے حقیقت کی تخلیق اور توسیع پر رکھ کر خود کو دوسروں سے مختلف کر لیا ہے۔پھر وقت کے حوالے سے اس نے ایک بھر پور تصور کو”علینہ”کے سارے حصوں میں یوں اجال دیا ہے کہ ہر منظر آگے آنے والے منظر کی چوکھٹ بن جاتا ہے۔
رولومے نے ایک دلچسپ بات کہی تھی، دلچسپ بھی اور عجیب بھی۔اس کا کہنا تھا کہ "ایک کتے کو اس بات کی پرواہ نہیں ہوتی کہ ایک اور مہینہ یا ایک اور سال بیت گیا لیکن ایک انسان تو یہ سوچ کر گھبرا جاتا ہے۔”فرشی کے یہاں یہی تشویش ایک خوبصورت تخلیق کا محرک بن گئی ہے، کچھ اس طرح کہ وقت نے بھی نئی معنویت کے گلابی بوسے لے لئے ہیں۔
مجموعی طور پر "علینہ” کا نور جس نقطے پر مرتکز ہو رہا ہے وہ انسانی وجود ہے، وہی جسے سقراط نے عظیم بلندیوں کا گہوارہ قرار دیا تھا۔کیرکے گارڈ نے سقراط کے کہے سے یہ بنیادی نکتہ نکالا تھا کہ "ساری کائنات اسی وجود انسانی پر مرتکز ہے۔اس کا عرفان حقیقت اولیٰ کا عرفان ہے۔” یوں "علینہ”اور "علیزے” کے دونوں کردار ان دو شفاف آئینوں جیسے دکھنے لگے ہیں جو عکس در عکس ایک دوسرے کو زنجیر کئے ہوئے ہیں۔
یہی وہ اسباب ہیں جن کے برتے پر مجھے اصرار ہے کہ "علینہ”کو اردو کی معدودے چند باقی رہ جانے والی نظموں میں شمار کیا جائے گا۔آپ نے دیکھا کہ اس میں فرشی کی قوت متخیلہ کوندے کی طرح ایک ہی ساعت میں کئی زمینوں اور کئی زمانوں پر سے لپک کر ابدیت کے کناروں کو چھو لیتی ہے۔وہ اپنے امیجز کی تعمیر کے لئے اس بے کنار زمانی و مکانی علاقے سے غیر مانوس مماثلتیں اور انوکھی تضادات اور پھر ان کے جواز برآمد کر کے نظم کے کینوس پر یوں بکھیر دیتا ہے کہ ایک مربوط بصری اور معنوی نظام ترتیب پا جاتا ہے۔اس طرح فن پارے کے بطن سے ایسا طلسماتی ماحول وجود پذیر ہوتا ہے جس میں زمان و مکاں، قدیم و جدید، اساطیر و سائنس، فلسفہ و تصوف، ارتقاء و فنا، مذہب و تعقل، مادہ و روح، موت اور محبت سب ایک دوسرے سے مربوط ہو کر براہ راست ترسیل کے بجائے امیجز کے ذریعے نئی بوطیقا تشکیل دے دیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اس کے ہاں نہ تو معنی کی مطلقیت اور قطعیت ہوتی ہے اور نہ شاعرانہ تصنع۔یوں وہ اپنی نظم کے لئے ایسا نظام وضع کر لیتا ہے جس کے ذریعے انسان اور فطرت کے نامیاتی تعلق سے پیدا ہونے والے معلوم تضادات کے کنگروں سے وراء منطقے دریافت ہونے لگتے ہیں اور نظم دانشورانہ ادراک اور ارادی شعور سے اگلی منازل کی اوڈیسی بن جاتی ہے۔

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

تنقید

شکیب جلالی

  • جولائی 15, 2019
از يوسف خالد شکیب جلالی—————-ذہنی افلاس اور تخلیقی و فکری انحطاط کی زد پر آیا ہوا معاشرہ لا تعداد معاشرتی
تنقید

کچھ شاعری کے بارے میں

  • جولائی 15, 2019
      از نويد صادق مولانا شبلی نعمانی شعرالعجم میں لکھتے ہیں: ’’ سائنس اور مشاہدات کی ممارست میں