پرسوں نرسوں سوچتا تھا
بطنِ فردا میں کوئی دن اُخروی ایسا بھی ہو گا
جس میں ما معنیٰ مرا ماضی پلٹ کر ساعتِ امروز ہو گا؟
اب پس ِپردہ بالاخر حال، ماضی اور مستقبل اکٹھے ہو گئے ہیں
تو مجھے کہنے میں قطعاً کوئی پیش و پس نہیں ہے
آنے والے دن کسی مستقبل ِ امکاں کا دعوےٰ کیا کریں گے؟
میں خود ایسا حالِ حاضر باش تھاجو
رہ نوردوں
رفتگان و قائماں کو
ماضئ مطلق کی اڑتی گرد میں ملبوس۔۔۔۔۔
پیچھے چھوڑ کر امکاں کی جانب
برسوں پہلے چل چکا تھا
آج جب یہ آنے والے کل کا امکاں
میری مٹھّی میں ہے، تو میں
اپنے پیچھے آنے والے
نظم گوئی کی ڈگر پر پر
رہ نوردوں سے فقط اتنا کہوں گا
راستہ سیدھا ہے یارو
پیچھے مڑ کر دیکھنا
پتّھر کا بُت بننے کی خواہش کا اعادہ ہے ….
کہیں ماضی میں گُم ہونے کی خواہش
(یہ سمجھ لو)
اس لیے بہتر یہی ہے
پاؤں پاؤں چلتے آؤ