نظم

پاؤں پاؤں چلتے آؤ : ڈاکٹرستیہ پال آنند

پرسوں نرسوں سوچتا تھا
بطنِ فردا میں کوئی دن اُخروی ایسا بھی ہو گا
جس میں ما معنیٰ مرا ماضی پلٹ کر ساعتِ امروز ہو گا؟
اب پس ِپردہ بالاخر حال، ماضی اور مستقبل اکٹھے ہو گئے ہیں
تو مجھے کہنے میں قطعاً کوئی پیش و پس نہیں ہے
آنے والے دن کسی مستقبل ِ امکاں کا دعوےٰ کیا کریں گے؟
میں خود ایسا حالِ حاضر باش تھاجو
رہ نوردوں
رفتگان و قائماں کو
ماضئ مطلق کی اڑتی گرد میں ملبوس۔۔۔۔۔
پیچھے چھوڑ کر امکاں کی جانب
برسوں پہلے چل چکا تھا
آج جب یہ آنے والے کل کا امکاں
میری مٹھّی میں ہے، تو میں
اپنے پیچھے آنے والے
نظم گوئی کی ڈگر پر پر
رہ نوردوں سے فقط اتنا کہوں گا
راستہ سیدھا ہے یارو
پیچھے مڑ کر دیکھنا
پتّھر کا بُت بننے کی خواہش کا اعادہ ہے ….
کہیں ماضی میں گُم ہونے کی خواہش
(یہ سمجھ لو)
اس لیے بہتر یہی ہے
پاؤں پاؤں چلتے آؤ

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی