نظم

وہ کہ اوجھل ہے میری آنکھوں سے : یوسف خالد


یوسف خالد
وہ کہ اوجھل ہے میری آنکھوں سے
کیا خبر
کتنی خوبصورت ہے
کیا خبر اس کی مدھ بھری آنکھیں
اس کے ہونٹوں کی احمریں قاشیں
اس کے گالوں کی خوشنما رنگت
اس کی زلفوں کے ریشمی حلقے
اس کے پیکر کی دلنشیں قوسیں
میں فقط ان کو سوچ سکتا ہوں
ایسا لگتا ہے میری سوچوں سے
وہ کہیں بڑھ کے خوبصورت ہے
کیسے لفظوں میں ہو بیاں اس کی
چال — لگتا ہے اک قیامت ہے
اس کے لہجے کی شوخیاں توبہ
گفتگو اس کی جیسے آبِ رواں
میں اگر آئینہ بھی ہوتا تو
دیکھ کر اس کی خوش نمائی کو
لازمآ پاش پاش ہو جاتا
میں کہ شاعر ہوں اس لیے مجھ کو
یہ سہولت ہے سوچ سکتا ہوں
میں نے سوچا ہے وہ پری چہرہ
ایک شاہکار ہے صباحت کا
خال و خد اس کے اجلے اجلے ہیں
ہونٹ مسکن ہیں مسکراہٹ کا
مجھ کو تسلیم ہے کہ لفظوں میں
اس کی تصویر بن نہیں پائی
میں مصور نہیں ہوں شاعر ہوں
رنگ لفظوں میں بھر نہیں سکتا

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی