نظم

نور جہاں‌کے مزار پر : ساحرلدھیانوی

نور جہاں‌کے مزار پر

پہلوئے شاہ میں‌یہ دخترِ جمہور کی قبر
کتنے گم گشتہ فسانوں کا پتہ دیتی ہے
کتنے خوں‌ریز حقائق سے اٹھاتی ہے نقاب
کتنی کچلی ہوئی جانوں‌کا پتہ دیتی ہے

کیسے مغرور شہنشاہوں کی تسکیں کے لئے
سالہاسال حسیناؤں کے بازار لگے
کیسے بہکی ہوئی نظروں کے تعیش کے لئے
سرخ محلوں ‌میں ‌جواں جسموں‌کے انبار لگے

کیسے ہر شاخ سے منہ بند، مہکتی کلیاں
نوچ لی جاتی ہیں تزینِ حرم کی خاطر
اور مرجھا کے بھی آزاد نہ ہو سکتی تھیں
ظلِ سبحان کی اُلفت کے بھرم کی خاطر

کیسے اک فرد کے ہونٹوں کی ذرا سی جنبش
سرد کرسکتی تھی بے لوث وفاؤں کے چراغ
لوٹ سکتی تھی دمکتے ہوئے ماتھوں‌کا سہاگ
توڑ سکتی تھی مئے عشق سے لبریز ایاغ

سہمی سہمی سی فضا میں یہ ویران مرقد
اتنا خاموش ہے، فریاد کناں‌ ہو جیسے
سرد شاخوں میں ہوا چیخ‌ رہی ہے ایسے
روحِ تقدیس و وفا مرثیہ خواں ہو جیسے

تو مری جاں! مجھے حیرت و حسرت سے نہ دیکھ
ہم میں‌ کوئی بھی جہاں نور و جہانگیر نہیں
تو مجھے چھوڑ کے، ٹھکرا کے بھی جا سکتی ہے
تیرے ہاتھوں میں‌مرے ہاتھ ہیں زنجیر نہیں​

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی