از : یوسف خالد
اک دائرہ ہے
دائرے میں آگ ہے
اور آگ کے روشن تپش آمیز منظر سے کوئی کردار ابھرا ہے
عجب ماحول ہے
اک بے نیازی ہے،جنوں پرور ادا ہے
رقص جاری ہے
تھرکتے پاؤں انگاروں پہ پڑتے ہیں
تو انگاروں کی نبضیں ڈوب جاتی ہیں
انوکھی بے خودی ہے
کیف و مستی ہے
مسلسل رقص جاری ہے
مگرکچھ فاصلے پر
منتظر بیٹھی ہوئی یخ بستگی
یہ سوچتی ہے
کب ادھورے خواب
ان آنکھوں کی پلکوں سے گریں گے
خاک کی پوروں میں اتریں گے
الاؤ کب بجھے گا
کب تماشہ ختم ہوگا
کب نئی رت پھر نئے خوابوں کو
آنکھوں میں سجائے گی
نئے رنگوں سے خوشبو سے
نیا کردار ابھرے گا
نئی صورت گری ہو گی
کہانی مر نہیں سکتی
کہانی پھر جنم لے گی
یوسف خالد