نظم

نئے عہد کی بنیاد : یوسف خالد

اشہب وقت
ذرا دیر کو رک
مجھ کو یہ گیند تھما
میں اسے الٹا گھما کر دیکھوں
کیسے دریا میں ہوا غرق وہ لشکر جس کو
اپنا سردار
جہاں بھر کا خدا لگتا تھا
زعم کتنا تھا اسے مالکِ کل ہونے کا
کس قدر اس کو بھروسہ تھا
کہ اس کی قوت
کرہ ء، ارض پہ جو چاہے وہ کر سکتی ہے
کس طرح اس کا تکبر خس و خاشاک ہوا
کس خجالت سے گزر کر اسے احساس ہوا
ہے کوئی اور جو ہے قوت و ہیبت والا
ہے کسی اور کے قبضے میں نظامِ ہستی
ہے کوئی اور جو غالب بھی ہے قادر بھی ہے مختار بھی ہے
ہے وہی سارے جہاں کا خالق
ہائے اک جھوٹے کو تسلیم کی مہلت نہ ملی
بیچ دریا کے اسے موت نے لا چار کیا
عہدِ موجود کے بھی جھوٹے خدا سوچتے تھے
ہم بدل سکتے ہیں
اس کرہءِ ارضی کا نظام
ایک انہونی ہوئی
کھیل کی بازی پلٹی
بادِ صرصر کی طرح پھیل گیا خوفِ بلا
ہنستے بستے ہوئے شہروں میں
گلی کوچوں میں
موت کے عفریت نے پنجے گاڑے
ایک ان دیکھے عدو کے ہاتھوں
ہو گیا زیر و زبرعالی دماغی کا غرور
اشہب وقت ذرا دیر کو رک
اک نئے عہد کی بنیاد مجھے دیکھنے دے
یوسف خالد

younus khayyal

About Author

1 Comment

  1. younus khayyal

    اپریل 14, 2020

    وااااااااااااااااااااااااااااااہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت عمدہ

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی