شام کے سبھی منظر
اندھیرا اوڑھ رہےہیں
جگنو آنکھیں مل کر
وردیاں پہنے ہیں
مچھر نالیوں سے ہو کر
محل کو گھر سمجھ بیٹھے
فیکٹریوں کی اگلی زہریلی گیس
سانسوں کو اکھیڑتی
زندگی کو موت کے سپرد کر رہی ہیں
چرند
ڈھیرے سے ایکسپاٸر دواٸیں
کھا کر بھوک مٹاتے مر جاتے ہیں
چوک میں پھرتے آوارہ کتے
بلیوں کو قصاب کی دکان پر
آنے سے پہلے کاٹ کھاتے ہیں
جن کے فاقہ کش بچے
گھروں میں بے ہوش پڑے
خوراک کے منتظر ہیں
بہت سی اچھی باتیں
دیواروں کے سینوں سے
بالکل صاف نظر آ رہی ہیں
سب کچھ دیکھا ان اندیکھا
کر کے گزر جاتی ہے
جیسے بانجھ ہو
ظالم ہوس