نظم

ظالم ہوس : فیض محمد صاحب

شام کے سبھی منظر
اندھیرا اوڑھ رہےہیں
جگنو آنکھیں مل کر
وردیاں پہنے ہیں
مچھر نالیوں سے ہو کر
محل کو گھر سمجھ بیٹھے
فیکٹریوں کی اگلی زہریلی گیس
سانسوں کو اکھیڑتی
زندگی کو موت کے سپرد کر رہی ہیں
چرند
ڈھیرے سے ایکسپاٸر دواٸیں
کھا کر بھوک مٹاتے مر جاتے ہیں
چوک میں پھرتے آوارہ کتے
بلیوں کو قصاب کی دکان پر
آنے سے پہلے کاٹ کھاتے ہیں
جن کے فاقہ کش بچے
گھروں میں بے ہوش پڑے
خوراک کے منتظر ہیں
بہت سی اچھی باتیں
دیواروں کے سینوں سے
بالکل صاف نظر آ رہی ہیں
سب کچھ دیکھا ان اندیکھا
کر کے گزر جاتی ہے
جیسے بانجھ ہو
ظالم ہوس

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی