نظم

سوچتا ہوں کیا لکھوں میں  : یوسف خالد

سوچتا ہوں کیا لکھوں میں
اپنے دل کی دھڑکنوں کا زیرو بم،
دم بدم بنتی بگڑتی صورتوں سے منسلک
آدھے ادھورے رابطوں ، بے کیف لمحوں،
مضمحل احساس کی درماندگی،
ٹوٹے ہوئے وعدوں کی کوئی داستاں
یا ذات سے باہر
بہر سو مستقل پھیلے ہوئے خدشات
اور خدشات کی زد میں
گھری مخلوق کی بے تابیاں ، محرومیاں،
دہشت زدہ ماحول میں پلتی ہوئی نسلوں کا پیہم اضطراب
یا پرندوں کی حسیں چہکار،
کھلتے موسموں کے رنگ ،
خوشبوئیں،
خزاں نا آشنا سر سبز بیلوں سے مزیّن
صحن کی دیوار سے لپٹے ہوئے اچھے دنوں کے خواب،
آنکھوں کے منور آئینوں میں عکس ہوتی خواہشیں
اور خواہشوں کی اوٹ سے
دزدیدہ جذبوں کی عیاں ہوتی ہوئی
مہکارکا احوال لکھوں
یا ہمیشہ کے لیے سب کچھ بھلا کر
خامشی کو اوڑھ لوں
عزلت نشیں ہو کر
مسلسل سوچنے کے کرب سے آزاد ہو جاؤں
میں کیوں نہ لفظ کے اسرار سے بے گانہ ہو جاؤں

younus khayyal

About Author

1 Comment

  1. AroojButt

    جون 30, 2020

    نظم ہے یا جان لیوا ساعتیں ہیں ۔۔۔ہر شعر حسن و رعنائی کا پروردہ ہے ۔۔۔شاعر کے فن شاعری کا تو کوئ مقابل نہیں لیکن میں شاعر کی عزلت نشینی کی قائل نہیں ۔۔۔۔خدا محترم یوسف خالد کے فن تحریر سے دلوں میں محبت کے سمندر کو جگہ دے اور ان کا فن جو ان کی محبت ہے کو عظمتیں عطا فرمائے آمین

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی