نظم

زردی: سعید اشعرؔ

سعید اشعر
سعید اشعرؔ
آنکھوں کا پانی
میرے جسم کی مٹی گھول رہا ہے
کوئی چپکے چپکے بول رہا ہے
میری ہجرت
میرے اندر سے
میرے اندر کی جانب
جانے کب تک جاری رہتی ہے
نیند کا پتھر
کتنا بھاری ہے
میری پلکوں پر رکھا ہے
سورج کب نکلے گا
پربت کا چہرہ دھندلا ہے
میں اک ایسے پیڑ کے نیچے بیٹھا ہوں
جس کے آدھے پتوں پر
پیلے رنگ کا سایا ہے
میری گردن میں
تیرے وعدوں کی مالا ہے
گدڑی سر کے نیچے رکھوں تو
تیتر بولنے کی آوازیں آتی ہیں
رستے کے ایک کنارے پر صحرا ہے
صحرا کی جھولی میں دریا ہے
پانی کے چھینٹوں سے
میرے پاؤں کے تلوے بھیگ رہے ہیں
"مرشد! میں نے اس کے نام پہ مرنا تھا
میرے سارے کام ادھورے ہیں”

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی