نظم

دہر آباد : اقتدار جاوید


اقتدار جاوید
پیچ کھاتے پُلوں
جگمگاتی گزرگاہوں شاہراٶں کے درمیاں
راکھ کا ڈھیر ہے
راکھ کے ڈھیر پر شہر آباد ہے
قہرِ اوہام میں
کارخانہِ وہم و گماں
ہے دمادم رواں
لا کے افسون میں
کِرم خوردہ تمناٶں کا دہر آباد ہے
راستہ بُھولے سیّاح
سیاّحوں کی ان کہی داستاں
پابہ زنجیر بوڑھے غلاموں کے پنجر
گلوبند، بُندے، جواہر بھرے تھال
انگوٹھیاں، ریشمی رومال
دریا میں دریا کی پاتال
ہر چیز غرقاب ہے
تیرا دریا، نشوں سے گراں بار دریا
مگر لہر در لہر آباد ہے!!

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی