اقتدار جاوید
پیچ کھاتے پُلوں
جگمگاتی گزرگاہوں شاہراٶں کے درمیاں
راکھ کا ڈھیر ہے
راکھ کے ڈھیر پر شہر آباد ہے
قہرِ اوہام میں
کارخانہِ وہم و گماں
ہے دمادم رواں
لا کے افسون میں
کِرم خوردہ تمناٶں کا دہر آباد ہے
راستہ بُھولے سیّاح
سیاّحوں کی ان کہی داستاں
پابہ زنجیر بوڑھے غلاموں کے پنجر
گلوبند، بُندے، جواہر بھرے تھال
انگوٹھیاں، ریشمی رومال
دریا میں دریا کی پاتال
ہر چیز غرقاب ہے
تیرا دریا، نشوں سے گراں بار دریا
مگر لہر در لہر آباد ہے!!