صبح سویرے
اسے اک طلب نے اکسایا
اس نے مشاہداتی کھڑکی کھولی
باہر منظر میں جھانکا
عکس نے آنکھوں میں اتر کر تصویر کا روپ لیا
حسن دل کو بھایا
دل نے اظہار کو فرض جانا
الفاظ خیالوں پر سوار ہو کر آئے
قلم نے صفحوں پر لفظوں کی نمائش کر ڈالی
خالی صفحے رنگین ہوئے
بھرے ہوئے صفحے ایک طویل سفر پہ نکلے
خود کو ہنر مندی کے حوالے کیا
سخن شناسی نے دیکھ پرکھ کی
خوش نظری کے ذہن پہ لفظوں نے تاثر چھوڑا………..
اسے بھی طلب نے اکسایا
اس نے بھی ایک اچھوتی داستاں تحریک کر ڈالی
اور اپنے احساس کے مہکتے گلابوں کو
سدا مہکتے رہنے کے لیے
تخلیقی کتاب میں قلمبند کر دیا……………..