نوشی ملک
وہ نظموں سا
وہ غزلوں سا
سریلی راگنی سا ہے
وہ شبنم سا
ملائم سا
سہانی چاندنی سا ہے
وہ امبرعود کے لہجہ میں
خوشبو کے اثر سا ہے
سنہری دھوپ سرما کی
تمازت میں شجر سا ہے
وہ مستی کا کنایہ ہے
شرابوں کے اثر سا ہے
سجیلا بانکپن اس کا
خوشی کا استعارہ ہے
بہاروں کی قبا ہے وہ
حسیں ہے دلربا ہے وہ
وہ ساون بارشوں سا ہے
وہ سندر موسموں سا ہے
فضا میں عکس ہے اس کا
وہ گہرے پانیوں سا ہے
ہنسی میرے لبوں کی ہے
میرے خوابوں کا آنچل ہے
وہ کاجل میرے نینوں کا
مری رگ رگ میں شامل ہے
ہواوں سا
گھٹاوں سا
دھنک کے رنگ ہیں سب اس میں
رفیع کے گیت جیسا ہے
کوئی مورت پیکاسو کی
رباعی میر کی ہےوہ
وہ غالب کی غزل سا ہے
مرے غم کا مداوا ہے
مری سوچوں کا محور ہے
وہ میری دھڑکنوں میں ہے
مری سانسوں میں رقصاں ہے
میں اس کو سوچتی ہوں
بے خودی میں رقص کرتی ہوں
تصور میں اسے چھوتی ہوں
اسی کو عکس کرتی ہوں
نوشی ملک