بارش کی بوندیں
فلک پہ ماتھے پہ جمی ہیں
کان باہر کھڑکی پہ
آوازوں کے
کب سے منتظر ہیں
سرد ہوا گالوں پہ
خوں جماتی پھرتی ہے
چھت پر پھرتی بلی
باہر گلی کے کتوں سے
سہم کر منڈیر پر بیٹھی
چاندنی کو کیفِ مفلسی سُنا کر
رو رہی ہے
خوشبو دار بیلیں
دیواروں کے سینے معطر کر رہی ہیں
بادل کب سے ٹہلتے ٹہلتے
اپنا رستہ بدل رہے ہیں
زندہ ہیں پر جیسے
جاناں اس موسم میں
کیسے بتلائیں تم کو
پل پل جذبے سُلگ رہے ہیں
اور ۔۔۔۔۔۔مر رہے ہیں جاناں
بن تیرے ہم
بِن تیرے ہم : فیض محمدصاحب
