فن فنکار

مصورِ فطرت و ثقافت استاد الله بخش : سلمیٰ جیلانی


تحریر و تحقیق سلمیٰ جیلانی
مصور فطرت و ثقافت استاد الله بخش
(١٨٩٢-١٩٧٨)
استاد اللہ بخش عبد الرحمٰن چغتائی کی طرح ان چنیدہ مصوروں میں سے ہیں جنھیں برصغیر پاک و ہند میں یکساں مقبولیت و پزیرائی حاصل ہوئی انہیں اگر مصور فطرت و ثقافت کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کیونکہ پانچ دریاؤں کی سرزمین کے ثقافتی رنگوں کو جس طرح اپنے تخیل کے ذریعے نہایت عالی شان طور کینوس پر مختلف کرداروں کے روپ میں اتارا اس نے انہیں دیکھنے والے کی نظروں میں ہمیشہ کے لئے امر کر دیا انہوں نے اپنی انگلیوں کو خون دل میں ڈبو کر وہ شاہکار تشکیل دیئے جو آنے والی نسلوں کو ہمیشہ اپنی مٹی سے جڑی ثقافت اور تہذیب کی یاد دلاتے رہیں گے اور وہ دیکھ سکیں گے کہ یہاں کیسے کیسے خوب صورت زندگی اور وفا سے بھرپور رنگ ہوا کرتے تھے
چونکہ ان کے والد ایک پینٹر تھے تو گویا یہ شوق انہیں ورثہ میں ملا تھا مگر انہوں نے عربی اور اردو کی تعلیم کے لئے مدرسہ بھیجا مگر ننھے اللہ بخش کا ذہن تو مصوری کے لئے بنا تھا سو یہ زبانیں انہیں کبھی سمجھ نہ آئیں اور بچپن ہی سے قلم اور کاغذ کی بجائے برش اور رنگوں سے کھیلنے لگے –
استاد اللہ بخش نے مصوری کی تعلیم کسی ادارے سے نہیں حاصل کی خوش قسمتی سے آٹھ سال کی عمر میں ہی والد صاحب نے نامور استاد نقاش عبداللہ کی شاگردی میں دے دیا جو کہ منی ایچر یعنی مینا توری آرٹ کے ماہر تھے اس کے علاوہ مغربی آرٹ میں بھی گہری دلچسپی رکھتے تھے ، ریگل چوک لاہور میں ان کی دکان جو کہ اسٹوڈیو بھی تھی پر بیٹھے تین سال تک تختی پر حروف ابجد کی مشق کرتے رہے پھر اگلا سبق رنگوں کے استعمال اور مغل آرٹ کے نمونوں کی نقل کا تھا جو اس معصوم بچے نے پوری لگن اور صبر و تحمل سے حاصل کیا چودہ برس کی عمر میں ہی ان کی فنکارانہ صلاحیتں ابھر کر سامنے آئیں جب انہوں نے آغا حشر کاشمیری کے تھیٹر ڈراموں کے سیٹ ڈیزائن کیے۔ اس کے علاوہ تھیٹریکل کمپنی حافظ آباد میں پردوں کی رنگ کاری اور نقاشی کرتے رہے۔بمبئی میں مناجان تھیٹریکل کمپنی میں نقش کشی کی۔اس دوران مصوری جاری رہی اور ان کی خدا داد صلاحیتوں کا اعتراف کیا جانے لگا
١٩١٤ میں وہ بمبئی منتقل ہو گئے اور تھیٹر کی سیٹ ڈیزائننگ اور فوٹو گرافی کے کام سے وابستہ ہو گئے ان کے ہندو دیو مالائی کرداروں کے فن پارے ہندو خریداروں کی خاص دلچسپی کا سبب بن گئے یہاں انہوں نے جن رومانوی اور تھیٹریکل تھیمز یعنی بنیادی خیالات پر کام کیا وہ شیکسپئیر کے ڈراموں سے بہت متاثر تھیں اور یوں آرٹ کی دنیا میں رومانویت کے ماہر کی حیثیت سے پہچانے جانے لگے –
نیم کے درختوں کی چھاؤں میں بیٹھے کہانیاں سنتے اور سناتے لوگ ، پنگھٹ سے پانی بھرتی رنگین آنچل لہراتی پنجابی مٹیاریں ، آکاش سے پھوٹتا سویرا اورڈوبتی سانجھ کے درمیان کھیتوں میں پسینے سے بھیگے ھل چلاتے کسان اور ان کے توانا بیل ان کی پینٹنگز کے خاص موضوعات ہیں ، یہی نہیں انہوں نے پنجاب کی رومانی لوک داستانوں سوہنی مہیوال ، ہیر رانجھا حتیٰ کہ طلسم ہوش ربا اور ہندو دیو مالا کو بھی اس طرح اپنے تخیلاتی مناظر میں سمویا کہ دیکھنے والا خود کو ان داستانوں کا ایک کردار تصور کرنے لگتا ہے ، وہ روغنی رنگوں سے کھیلتے اور جہازی سائز کینوس پر انہیں اس مہارت سے برتتے کہ ان کے تخیل کی دنیا زندہ اور سانس لیتی ہوئی محسوس ہونے لگتی ، ایک استاد کی حیثیت سے ان کی مہارت صرف روغنی رنگوں کے استعمال تک ہی محدود نہ تھی بلکہ مختلف میڈیم جیسے انک اور پپن ، پینسل ، اور آبی رنگوں میں بھی کافی کام کیا –
وہ جرمن مصور آرچی بالڈ ملر سے بہت متاثر تھے جو ہندستان میں ہی منتقل ہو کر آرٹ سے وابستہ تھا ان کی قدرتی مناظر کی تصاویر میں اس کا اثر بھی صاف دکھائی دیتا ہے مگر استاد اللہ بخش کی تمام پینٹنگز کے کردار ان کے اپنے شاندار تخیل کی پیدا وار تھے انہوں نے کبھی کسی انسانی ماڈل کا سہارا نہیں لیا اس کے باوجود ان کی باریک تفصیلات کو دیکھ کر انسانی دماغ دنگ اور زبان گنگ ہو جاتی ہے
اٹھارہ سو اٹھانوے ء میں بمبئی میں ہونے والے تصویری نمائش میں ان کا شاہکار اول قراردیا گیا۔کلکتہ میں بھی آپ کی تصاویر کی نمائش ہوئی جس میں آپ کی کاوش کو سراہا گیا۔ان کی تخلیق کردہ تصویر کی پہلی نمائش لاہور میں انیس سو تین ء میں ہوئی، اس کے علاوہ جے جے سکول آف آرٹس بمبئی کے پرنسپل نے ان کو تدریس کی دعوت دی۔ میو سکول آف آرٹس میں بھی مصوری سکھانے کا موقع ملا مہاراجہ پٹیالہ نے بھی بلایا مگر وہ ان کے ساتھ ایک سال سے زیادہ نہ رہ سکے اور لاہور آگئے استاد اللہ بخش کو پینتیس کے قریب تعریفی اسناد، ایوارڈ اور تمغے ملے۔حکومت پاکستان نے تمغہ خدمت اور اعلیٰ ترین تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا۔پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس کے شعبہ بصری فنون کے پاس ان کی زندگی اورفن پر مبنی ایک فلم رپورٹ بھی موجود ہے۔جس میں انہیں مصوری کرتے اور شاگردوں کو اس فن کے رموز سکھاتے ہوئے دکھایا گیا ہے-
لاہور میوزیم میں ان کی پینٹینگز بہت نمایاں رکھی گئی ہیں. ان میں عمرو عیار کی طلسم ہوشربا اور بیلوں کی جوڑی بہت معروف ہیں.
استاد اللہ بخش کی شخصیت ان کی تخیل آمیز مصورانہ مزاج کے عین مطابق نرم اور پرسکون تھی جو لوگ انہیں قریب سے جانتے تھے ان کے مطابق ان کی سنگت میں بیٹھنے والے کو جو سکون اور خوشی ملتی تھی وہ شائد ہی کہیں اور سے ملی ہو –
لیکن یہ امر نہایت ہی افسوس ناک ہے کہ مصوری کے لئے کی جانے والی ان کی بے مثال خدمات کے باوجود مالی طور پر کبھی وہ استحکام نہ ملا جسے کے وہ مستحق تھے
ان کی معاشی جدوجہد کے بارے میں مشہور مصور عبد الرحمٰن چغتائی کے صاحب زادے عارف رحمٰن چغتائی کہتے ہیں
” میں انے ستاد اللہ بخش کو ہمیشہ اپنے والد کے بہت قریب پایا ایک مرتبہ انہوں نے والد صاحب کے اعزاز میں بہت بڑی دعوت کا اہتمام کیا اور مجھے دودھیا سفید لقاء کبوتروں کی جوڑی تحفے میں دی یہ کبوتر ہمارے باغیچے میں شاہی انداز میں چہل قدمی کیا کرتے تھے ،میرے والد کے انتقال پر وہ حد درجہ اداس ہو گئے اور گھنٹوں ہمارے گیراج کے باہر بیٹھے رھے جبکہ دوسرے نامی آرٹسٹ اس وقت وائی ایم سی ائے میں مستیوں میں مصروف تھے ”
استاد اللہ بخش اس خطے میں فن مصوری کی ناقدری سے سخت خائف تھے ان کی دور بین نگاہیں جانتی تھیں کہ نہ صرف اس وقت بلکہ آنے والے دور میں بھی آرٹ اور آرٹسٹ کا مستقبل مالی اعتبار سے زیادہ تابناک نہیں وہ اپنے شاگردوں سے نہایت معمولی فیس لیا کرتے تھے اور اپنے بیٹوں کو بھی یہی ہدایت کی جس کی پاسداری انہوں نے ان کے انتقال کے بعد بھی کی ، ان کے بیٹے امجد تو انیس سو پچھتر میں بہت مایوسی کے عالم میں امریکا منتقل ہو گئے –
١٩٥٢ میں استاد اللہ بخش کی پینٹنگز کی نمایش منعقد ہوئی تو ان کے شاگرد حنیف رامے جو بعد میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ بھی رہے ان کی ایک پینٹنگ پچاس ہزار روپے میں خریدی جو کہ ان کی آرٹ کے لئے کی جانے والی اعلیٰ خدمات کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں
انیس سو اٹھتر میں ان کے انتقال کے کچھ عرصے بعد عارف رحمٰن چغتائی ان کے گھر گئے تو دیکھا اہل خانہ نے گزر بسر کے لئے گھر کے باہر کریانہ کی دکان کھولی ہوئی ہے .یہ ان کے گھر والوں کے لئے تو نہیں لیکن یہ اس معاشرے کے لئے بلا شبہ انتہائی شرم کا مقام ہے جس کے آرٹسٹ نے پوری دنیا میں اپنے شاندار تخلیقی کام کے ذریعے اس کی ثقافت کا نہایت حسین چہرہ پیش کیا اس کے گھر والوں کو اپنے روز و شب اس تنگی سے گزارنے پڑے ہوں –
ان کی پینٹنگز نہ صرف امریکہ اور چین کی اعلیٰ آرٹ گیلریوں کی زینت ہیں بلکہ ایران کے مشہور آرٹسٹ محمود فرشیاں تک کی آرٹ گیلری میں آویزاں ہیں تو کیا اس آرٹسٹ کے فن پاروں کو ملک کی تمام آرٹس کاؤنسل میں مستقل جگہ دینے کا حق حاصل نہیں؟ یفنون لطیفہ سے وابستہ ہر اس فرد کی طرف سے نوکر شاہی کے سامنے ایک سوالیہ نشان جو کسی صلے کی تمنا کے بغیر نہایت خلوص سے معاشرے کی حس لطیف کی تسکین کے لئے اپنے شب وروز صرف کئے ہوئے ہیں کیا آرٹسٹ اور ادیب صرف ہوا کھا کر اپنے بچوں کی پرورش اور اس فن کی آبیاری کر سکتے ہیں –
تحریر اور تحقیق سلمیٰ جیلانی
ریفرنس :
١.دی استاد اوف استاد ز ، ندیم عالم ، ڈان انگلش ،جولائی ٢٦، ٢٠١٥
٢. سنڈے میگ دنیا نیوز ،اکتوبر ١٣، ٢٠١٣
٣. فلائٹس اوف فینٹسی ، نیوز لائن ، ٢٤ فروری ، ٢٠١
٤،.چغتائی آرٹ میوزیم بلاگ
٥. استاد اللہ بخش فیس بک پیج سے پینٹنگز کے عکس لئے

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

فن فنکار

مرے وطن تری جنت میں آئیں گے اک دن

  • اگست 6, 2019
آرٹسٹ  و شاعر : محمد مختارعلی میں بطور خطاط و شاعر اپنی اور اپنی آرٹسٹ کمیونٹی کی طرف سے کشمیر
فن فنکار

ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت فرما

  • اگست 7, 2019
آرٹسٹ: راناآصف