نظم

نگری نگری پھرا مسافر گھر کا رستا بھُول گیا : میراجی

میرا جی
نگری نگری پھرا مسافر گھر کا رستا بھُول گیا
کیا ہے تیرا کیا ہے میرا اپنا پرایا بھُول گیا
کیا بھُولا، کیسے بھُولا، کیوں پوچھتے ہو؟ بس یوں سمجھو
کارن دوش نہیں ہے کوئی بھولا بھالا بھُول گیا
کیسے دن تھے، کیسی راتیں کیسی باتیں گھاتیں تھیں
من بالک ہے پہلے پیار کا سندر سپنا بھُول گیا
اندھیارے سے ایک کرن نے جھانک کے دیکھا، شرمائی
دھندلی چھب تو یاد رہی کیسا تھا چہرہ، بھُول گیا
یاد کے پھر میں آ کر دل پر ایسی کاری چوٹ لگی
دُکھ میں سُکھ ہے سُکھ میں دُکھ ہے بھید یہ نیا را بھُول گیا
ایک نظر کی، ایک ہی پل کی بات ہے ڈوری سانسوں کی
ایک نظر کا نور مِٹا جب اک پل بیتا، بھُول گیا
سُوجھ بوجھ کی بات نہیں ہے من موجی ہے مستانہ
لہر لہر سے جا سر پٹکا، ساگر گہرا، بھُول گیا
ہنسی ہنسی میں کھیل کھیل میں، بات کی بات میں رنگ مٹا
دل بھی ہوتے ہوتے آخر گھاؤ کا رِسنا بھُول گیا
اپنی بیتی جگ بیتی ہے جب سے دل نے جان لیا
ہنستے ہنستے جیون بیتا رونا دھونا بھُول گیا
جس کو دیکھو اُس کے دل میں شکوہ ہے تو اتنا ہے
ہمیں تو سب کچھ یاد رہا —پ رہم کو زمانہ بھُول گیا
کوئی کہے یہ کس نے کہا تھا کہہ دو جو کچھ جی میں ہے
میراجی کہہ کر پچھتایا اور پھر کہنا بھُول گیا

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی