نظم

قیامتِ صغریٰ : ڈاکٹرستیہ پال آنند

سنا تھا ہم نے کہ پیدائش و فنا دونوں
رواں ہیں اپنے مداروں میں آفرینش سے
مدارِ زیست ہے اک دائرے کا قرۃ العین
فنا بھی اس کی ہی گردش میں ہے شریک سفر

سنا تھا ہم نے کہ دونوں میں گہرا رشتہ ہے
یہ اپنے اپنے مداروں کے چرخ و پیچ میں جب
ذرا قریب سے گذریں تو ان کی کشش ِ ثقل

براہِ راست تصادم میں ان کو کھینچتی ہے

نتیجہ ؟ قمع و تخریب، نیستی، اتلاف
شکست و ریخت، تباہی، قلع و بیخ کنی

سنا تھا ہم نے یہ سب کچھ، مگر کچھ اور بھی تھا
کہ اس برس میں ہی، یہ عین ممکنات سے ہے
کہ آدمی کے مقدر میں ہو یہ بربادی
حساب ہیئتِ افلاک میں رقم ہے یہی
کہ اک قیامتِ صغٖریٰ ہے اپنے عین قریب
———————–

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی