محمود پاشا
روپ کی ہوتی اگر وہ دولتی
آنسووں کو خاک میں کب رولتی
ایک حسرت ہی رہی یہ عمر بھر
تیری آنکھوں سے محبت بولتی
اس کو بھاتی ہی نہیں تازہ ہوا
ورنہ گھر کے وہ دریچے کھولتی
پیار کا کانٹا نہیں تھا اس کے پاس
کس ترازو میں مجھے وہ تولتی
گر ملاتی آنکھ میری آنکھ سے
مست ہوتی ساتھ میرے ڈولتی