افسانہ خیال نامہ

چابی ۔۔۔ افسانہ : محمدجمیل اختر

محمدجمیل اختر
 محمدجمیل اختر
سب کچھ اُس کے منصوبے کے مطابق ہوا تھاسوائے ایک بات کے ، شاید یہ بات اُس کے ذہن میں کبھی بھی نہ آتی لیکن اُس کی بیوی نے اُس صبح اُس کی توجہ اِس جانب مبذول کرائی تھی اور تب سے وہ بے حد پریشان تھا، اتنی پریشانی تواُسے کل رات اُس وقت بھی نہ ہوئی تھی جب وہ تجوری سے رقم نکال رہا تھا۔اُس نے بڑی احتیاط سے بغیر کوئی شور کیے رقم تجوری سے نکالی تھی ۔وہ بے حد خوش تھا کہ پانچ سال سے وہ کچھ ایسے ہی موقع کی تلا ش میں تھااور کل رات اُسے یہ موقع میسر آگیا تھا جب اُس کا کنجوس مالک تجوری کی چابی اپنے کوٹ ، جو کمرے کے ایک کونے میں ٹنگا تھا ، میں بھول گیا تھا۔وہ روز مالک کے کوٹ کی تلاشی لیتا اور کل رات پہلی بار اُسے کامیابی حاصل ہوئی تھی ۔اُس نے گھر آکر رقم کی کئی گڈیاں بیوی کے سامنے ڈھیر کردیں ، اُس کی بیوی پہلے تو اتنی رقم دیکھ کر گھبرا گئی پھر فوراًاُس سے پوچھا
’’ کسی نے تمہیں چوری کرتے ہوئے دیکھا تو نہیں ؟‘‘
’’ نہیں بالکل نہیں وہ کنجوس بڈھا تو ابھی بھی سورہا ہوگا‘‘اُس کے لہجے میں بلا کا اعتماد تھا۔
’’ تمہیں آج یہ موقع کیسے ملا؟‘‘
’’ وہ کنجوس جلدی سوگیا تھا اور تجوری کی چابی اپنے کوٹ کی جیب میں بھول گیا تھا‘‘
’’اب چابی کہاں ہے ؟‘‘ اُس کی بیوی نے پوچھا
’’ وہ۔۔۔ ‘‘اُس نے سوچا
’’ وہ شاید میں نے کوٹ میں رکھ دی تھی، تاکہ پولیس ہمارے گھر کی تلاشی لے تو ہم گرفتار نہ ہوسکیں اور ویسے بھی ہم اُس کنجوس کے نوکر ہیں ہمارے گھر کی تلاشی تو ضرور ہوگی‘‘
’’پھرتو ہمیں دن نکلنے سے پہلے اِس ساری رقم کو باہر باغیچے میں چھپانا ہوگا‘‘ اُس کی بیوی نے کہا
وہ دونوں بہت احیتاط سے باہر باغیچے میں گئے اور بغیر آواز کیے ہاتھوں سے نرم زمین کو کھودنے لگے وہ کسی بھی طرح کا اوزار استعمال کرکے لوگوں کو متوجہ نہیں کرنا چاہتے تھے، حالانکہ ہاتھوں سے زمین کھودنے میں انہیں زیادہ محنت کرنی پڑرہی تھی ، کافی دیر بعد وہ اتنا بڑاگڑھا کھود چکے تھے کہ رقم کا تھیلاآسانی سے اُس میں چھپ سکتا تھاانہوں نے رقم کا تھیلا گڑھے میں چھپا کراُسے احتیاط سے بند کردیا۔
دن نکلنے میں اب تھوڑا ہی وقت تھا وہ کمرے میں آگئے اور اپنے مستقبل کے خواب دیکھنے لگے۔
’’ میں بہت سے کپڑے لوں گی ، اتنے ڈھیر سارے ‘‘ اُس کی بیوی نے بازو پھیلا کر بتایا
’’ہم تھوڑی سی زمین بھی لے لیں گے اورمیں کوئی کاروبار بھی شروع کروں گا‘‘ اُس نے کہا
وہ کافی خوش تھے کہ اُس کی بیوی نے وہ بات پوچھی کہ جس کے بعد اُس کی پریشانی بڑھ گئی تھی
’’ ایک بات بتاواگر تجوری کی چابی پر پولیس کو تمہاری انگلیوں کے نشان مل گئے تو ہم کیا کریں گے ، پولیس ضرورتمہیں گرفتار کرلے گی ‘‘
’’ وہ ، وہ ۔۔۔ہاں لیکن ۔۔۔واقعی یہ بات میرے ذہن میں پہلے کیوں کر نہ آئی ،مجھے فوراً کوٹھی میں جانا ہوگا اور کوٹ سے چابی نکال کر کسی کپڑے سے صاف کرنا ہوگی، اچھا ہوا تم نے یہ بات کہہ دی ورنہ پولیس سے بچنا ناممکن تھا‘‘
وہ یہ کہہ کر پریشانی کے ساتھ گھر سے نکل گیا۔اُسے رہ رہ کر اپنی حماقت پر غصہ آرہا تھا کہ کیوں اُس نے چابی کو صاف نہ کیا تھااُسے پولیس اور قید سے سخت خو ف آتا تھا۔وہ جب کوٹھی میں داخل ہوا توصدر دروازہ ویسا ہی کھلا ہوا تھا جیسا وہ چھوڑ کے گیاتھا،وہ ابھی اندر داخل ہی ہوا تھا کہ اُسے پیچھے سے بوڑھے سیٹھ کی آواز آئی
’’کہاں تھے تم ؟‘‘بوڑھے نے پوچھا جو صبح کی سیر کرکے واپس لوٹ رہا تھااور اُس نے وہی کوٹ پہن رکھا تھا۔
’’وہ میری بیوی بہت سخت بیمار تھی ، میں رات اُس کی تیمارداری اور دوا دینے کے لیے گھر گیا تھا‘‘ اُس نے بوڑھے کے کوٹ پر نظردوڑائی اور سوچا کہ اب وہ کیسے اِس سے کوٹ حاصل کرے
’’ اب کیسی طبعیت ہے تمہاری بیوی کی ؟‘‘
’’اب اُس کا بخار اُتر چکا تھاسو میں لوٹ آیا ہوں ، ویسے آپ کا کوٹ کافی میلا ہوچکا ہے کیا میں اِسے آج دھوبی کو دھلائی کے لیے دے دوں ؟‘‘
’’ نہیں نہیں یہ تو بالکل صاف ہے ‘‘ بوڑھے نے کوٹ کو تنقیدی نظر سے دیکھ کر کہا
’’ شاید جیبیں پرانی ہوچکی ہیں اور ان کے اندر کا کپڑا کافی بوسیدہ ہوچکا ہے ،آپ کو ضرور اِسے درزی کو سلائی کے لیے دینا چاہیے ، اگر آپ اجازت دیں تو میں آج ہی بازار جاکر اِسے درزی سے ٹھیک کرالاتا ہوں ‘‘اُس نے کوٹ حاصل کرنے کے لیے ایک اور حربہ آزمایا
’’ جیبیں ہیں تو ٹھیک لیکن تم سچ کہتے ہواِن کا اندرونی کپڑا کافی پرانا ہوچکا ہے سو اِسے آج درزی سے ٹھیک کرالاؤ‘‘ بوڑھے نے یہ کہہ کر کوٹ اتار کر اِس کے حوالے کردیا۔
اُس نے بے چینی سے کو ٹ لیا اورکوٹھی کے اندرایک غسل خانے میں گھس گیا ، دروازہ بند کرکے اُس نے کوٹ کی ہر جیب کی تلاشی لی لیکن اُسے کچھ نہ ملا۔
’’ چالاک بڈھا ، اُس نے پہلے ہی چابی نکال لی ہے ‘‘ اُس نے سوچا اور کوٹ باہر آکر ایک صوفے پر رکھ دیا، جوں جوں وقت گزر رہا تھا اُس کی پریشانی بڑھتی جارہی تھی ، مجھے یقینا کسی بھی قیمت پر چابی اِس بوڑھے سے حاصل کرناہوگی ورنہ ساری عمر جیل میں رہنا ہوگا۔اُس نے ذہن میں ایک منصوبہ بنایا ، باورچی خانے سے ایک چھری لی ، صوفے سے کوٹ اٹھا یا او ر چھری اُس کے نیچے چھپا کربوڑھے سیٹھ کے کمرے میں داخل ہوگیا، بوڑھا سیٹھ تجوری کے سامنے کھڑا چیزیں ِاِھر اُدھر کررہا تھا۔
’’ یہ یقینا تجوری کھولنے والا ہے اور سب کچھ اُس پر عیاں ہوجائے گا‘‘ اُس نے سوچا
’’ جناب جناب سنیے ایک بات پوچھنی تھی ‘‘ اُس کی آواز غیرضروری طور پر کافی اونچی تھی
بوڑھے سیٹھ نے فوراً مُڑ کرپیچھے دیکھا
’’کیا بات ہے اور یہ تم دروزاے پردستک دے کر کیوں نہیں آئے ؟‘‘ بوڑھے سیٹھ کے لہجے میں ناراضگی کا عنصر غالب تھا
’’ جناب میں تھوڑی جلد ی میں تھا سو مجھے یاد نہیں رہا‘‘ اُس کی آواز ابھی بھی ڈری ہوئی اور اونچی تھی
’’ اچھا بتاؤ کیا کہنا ہے ؟‘‘
’’ وہ آج کھانے میںکیا بنانا ہے ، میں بازار جارہا تھا سوچاسامان لیتا آؤں گا‘‘
’’ تمہیں پانچ سال ہوگئے ہیں ملازمت کرتے اور تمہیں معلوم ہے کہ میں ایسے سوالوں پر وقت ضائع نہیں کرتاتمہیں یہ سوال ہرگز نہیں پوچھنا چاہیے تھا‘‘
’’ وہ میں سمجھا آج کچھ خاص بنانا ہوتو پوچھ لوں ‘‘ آواز بدستو راونچی تھی وہ یہ کہہ کر مُڑاتواُس کے اندر کے خوف نے اُسے ایک بار پھر پلٹنے پر مجبور کردیاکیوںکہ اُسے پولیس اور جیل سے بے حد ڈر لگتاتھااُس نے سوچا کہ آج تجوری کھل گئی تو اُس کا راز بھی کھل جائے گا اور وہ ساری عمر کے لیے جیل چلا جائے گا ، اُسے ہر قیمت پر اِس بوڑھے کوروکنا ہوگا
’’ وہ آپ میری تنخواہ کب دیں گے ؟‘‘ اُس نے اونچی آواز میں پوچھا
’’ آج چھبیس تاریخ ہے اور یہ اکتیس کا مہینہ ہے اور تم جانتے ہو کہ میں ہرمہینے کی پہلی تاریخ کو تمہیں تنخواہ دے دیتا ہوں ‘‘
’’ وہ میری بیوی بیمار ہے ، مجھے اِس بار جلدی تنخواہ چاہیے ‘‘
’’ ٹھیک ہے میں چھبیس دن کی تنخواہ تمہیں آج ہی دے دوں گااور اب تم باہر جاؤ مجھے کچھ ضروری کام کرنا ہے ‘‘
’’یہ ضرور تجوری کھولنا چاہتا ہے ، بڈھامجھے جیل پہنچا کر ہی دم لے گا، کچھ بھی ہوجائے میں جیل نہیں جاؤں گا۔‘‘ اُس نے سوچا
’’میں سب جانتا ہوں تمہاراضروری کام ، میں تمہیں یہ تجوری نہیں کھولنے دوں گا‘‘ اُس نے چلا کر کہا معلوم نہیں اُس نے کیا سوچ کریہ بات کہہ دی تھی۔
’’ تمہارے ساتھ آج مسئلہ کیا ہے ، تم عجیب وغریب باتیں کررہے ہو‘‘ بوڑھے نے غصے سے اُس کہا
’’تم مجھے جیل بھیجنا چاہتے ہو، اور یہ میں ہرگز نہیں ہونے دوں گا، تم یہ تجوری نہیں کھول سکتے ‘‘ اُس نے یہ کہہ کر کوٹ ایک طرف پھینکا اور چھری بوڑھے کے سامنے لہرانے لگا۔
’’ بیوقوف آدمی ، میں تجوری نہیں کھول رہا ، مجھ سے کل رات اِس کی چابی کھو گئی تھی اور میں یہ سامان اِسی لیے ہٹا رہا ہوں شاید وہ سامان کے نیچے ہو‘‘
’’ سامان کے نیچے۔۔۔مطلب ، چابی رقم کے ساتھ۔۔۔زمین۔۔۔‘‘ اُس نے سوچا ،چھری وہیں پھینکی اوردوڑ لگا دی۔
اُسے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اب وہ کیا کرے، بوڑھے سیٹھ کو اب لازمی اِس پر شک ہوگیا ہوگا،اب وہ کسی بھی صورت پولیس سے نہیں بچ سکتا، ہرطرف اندھیرا چھانے لگا تھا، سڑک پر ایک گاڑی سے اُس کی زوردار ٹکر ہوئی اور وہ قلابازیاں کھاتا ہوا دورجاگرااُس کے سرپر شدید چوٹیں آئی تھیں اور خون تیزی سے سڑک پر بہنے لگا، ایک بڑے سائز کی چابی جو کہ غالباًکسی تجوری کی چابی تھی ، خون اُس پر سے بہتا ہوا سڑک کے ایک طرف ڈھلوان میں ایک لکیر سی بنانے لگا۔۔۔۔۔
ختم شُد

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

خیال نامہ

خیال نامہ

  • جولائی 10, 2019
’’ خیال نامہ ‘‘  السلام علیکم احبابِ گرامی! ہمارا معاشرہ بہت سے فکری مغالطوں اور ذہنی انتشار کا شکار   ہے
خیال نامہ

بانوکی ڈائری

  • جولائی 12, 2019
از : صا ئمہ نسیم بانو علم بالقلم وہ قادرِ مطلق, عظیم الشان خالق, تیرا رب جب آسمانی صحیفے کو