کالم

تھم چکی برسات کی بھیگی ہو ئی اک رات تھی : ناصر علی سید

ایک سکول کی راہداری میں اپنے بچے کے داخلے کے سلسلے میں آنے والی ایک خاتون کو اچانک اپنی ایک پرانی سہیلی ملتی ے،جو وہاں ٹیچر ہے،وہ خاتوں بڑی حیرانی سے اپنی ٹیچر سہیلی سے پوچھتی ہے کہ وہ تو شادی کے بعد کہیں باہر چلی گئی تھی،وہ اسے کہتی ہے لمبی کہانی ہے کھڑے کھڑے کیا سناؤں،او اسے گھر آنے کی دعوت دیتی ہے،،ملاقات پر وہ اسے شوہر کی حادثاتی موت اور بیرون ملک سے واپس آنے سے سکول ٹیچر بننے تک کی ساری کہانی سناتی ہے،کہانی سن کر سہیلی اسے کہتی ہے کہ ”ہم لڑکیاں تو شادی کے بعد ہی اپنے خوابوں کا محل تعمیر کرنا شروع کرتی ہیں مگر آپ کے ہاتھ سے تو پہلی اینٹ ہی گر کر ٹوٹ گئی۔ یہ مکالمہ پشاور ٹی وی کے ایک ڈرامہ ”چھاؤں“ کے لئے ماضی کی دو فنکاراؤں عابدہ انعم اور وکٹوریہ ہیرسن کے مابین ہوا تھا ویسے تو میرا لکھا ہوا یہ ڈرامہ کئی حوالوں سے مجھے یاد آتا رہتا ہے،ایک حوالہ یہ بھی ہے کہ جس بچے کو عابدہ انعم داخلے کے لئے سکول لے کر جاتی ہے وہ بچہ ا فراز ہوتا ہے جس کا کہانی میں آگے چل کے ایک اہم رول ہوتا ہے، اس وقت اس کی عمر بمشکل چار سال ہوتی ہے اور ہم اکثر اس کو اس ڈرامے کے مکالمے یاد کرا کے چھیڑتے ہیں، مگر اس دن مجھے بہت شدت سے عابدہ انعم کا ادا کیا ہوا یہ مکالمہ کہ ”ہم لڑکیاں تو شادی کے بعد ہی اپنے خوابوں کا محل تعمیر کرنا شروع کرتی ہیں مگر آپ کے ہاتھ سے تو پہلی اینٹ ہی گر کر ٹوٹ گئی“ یاد آیا، گزشتہ ہفتے جب میں فیملی کے ساتھ مری سے اسلام آباد کی طرف آ رہا تھا، تو جب ہم ایک گاؤں ”سترہ میل“ سے گزر رہے تھے تو اچانک رفعت نے کہا کہ تھوڑی دیر کے لئے چاچا صدیق کی خیریت دریافت نہ کر لیں،کچھ دنوں سے ان کا فون بھی نہیں مل رہا۔ شام ہو چلی تھی،میں نے کہا دیر ہو جائے گی،پھر آجائیں گے کہنے لگی رکتے نہیں بس ایک نظر ان کو دیکھ کر اور خیریت پوچھ کر آ جائیں گے، ان کا گھر سڑک کنارے ہی ہے، چاچا صدیق اور چاچا رفیق رفعت کے مرحوم والد کے بھائیوں سے زیادہ قریبی دوست رہے ہیں اور گرمیوں کا پورا سیزن رفعت لوگ سترہ میل میں ایک ہی گھر کے افراد کی طرح گزارتے تھے، تب اس گاؤں کے گھروں میں چند فٹ اونچی ایک علامتی سی چاردیواری تو ہوتی تھی مگر دروازے نہیں ہوتے تھے۔ اسّی کی دہائی کے اوائل میں اس بے کواڑ گھر میں مجھے بھی ایک دو راتیں گزارنے کا اتفاق ہوا تھا،رفعت کے والدین کی وفات کے بعد البتہ اس آمد و رفت میں بہت کمی آئی بلکہ ایک بار تو ہم اسی طرح مری سے واپسی پر جب آئے تو معلوم ہوا کہ تب ہم گیارہ برس گئے تھے، چاچا صدیق کو سب یاد رہتا ہے، بچے جوان ہو گئے تھے، ایک بچی اب کالج جاتی تھی وہ ڈرتے ڈرتے اس نے مجھے اپنی ڈائری دکھائی جس میں اس نے کچھ نثرانے اور کچھ نظمیں لکھیں ہوئی تھیں، مجھے بہت اچھا لگا تھا، میں نے اسے کہا کہ اب کے جب میں آؤں تو اس طرح کی دو ڈائریاں دیکھنا پسند کروں گا،ہم چاچا صدیق کے گھر گئے تو گھر پر نہیں تھے مگر ان کی بہوچاچا رفیق کے چھوٹی بیٹی) بھاگ کر آئی اور ایسے پیار سے ملی جس کے بیاں کے لئے شاید ہی لغت میں لفظ ہوں، پھر گھر بھرتا گیا چاچا صدیق کی بڑی بھتیجی بھی دوڑی چلی آئے بچے بھی آئے او ر تب میں نے اْس خوبصورت آنگن میں محبت کو اچھلتے کودتے دیکھا،پھر جب چاچا خود آئے تو ایک ایک سے ملتے اور رفعت کے والدین کو یاد کرتے ہوئے ان کا چہرہ آ نسو ئوں سے شرابور تھا، کتنی دیر سب چپ بیٹھے رہے،چار پانچ دہائیوں میں دنیا کہاں سے کہاں پہنچ چکی تھی،گاؤں اب بڑا قصبہ بن چکا تھا کچے گھر کچے راستے سب اب پختہ تھے، ،اب لالٹین اٹھا کر گلیوں سے گزرنا نہیں پڑتا تھا راستے بجلی کے قمقموں سے روشن تھے، سب کچھ بدل چکا تھا مگر اس گھر کے مکینوں کے اندر محبت کا مہرباں پیڑ اب پہلے سے زیادہ گھنا ہو چکا تھا۔ ہم بھول چکے تھے کہ ہم چند لمحوں کے لئے آ ئے ہیں ہمیں اونچے ٹیلے پر بنے ہوئے اویس راجا کے خوبصورت گھر بھی لے جایا گیا،وہاں بھی محبت کا یہی عالم تھا مہمان داری میں کچن اور ڈرائینگ روم کے درمیاں دورٹی بھاگتی اس گھر کی بہو رانی میں نے کہا کہ آپ کی پرسکون شام کی ٹھہری ہوئی جھیل میں ہم نے دخل در معقولات کا پتھر پھینک کر پانی میں ارتعاش اور دائرے پیدا کر دئیے، بہو رانی چونکہ سترہ میل کی نہیں ایبٹ آباد کی باسی تھی، میں نے سوچا ہم اس کے لئے اجنبی ہیں،کہنے لگی ”انکل کاش میں بتا سکتی کہ یہ پتھر،یہ دائرے اور یہ ارتعاش ہمیں کتنے عزیز ہیں اور یہ ہماری کتنی ہی شاموں کو آباد رکھیں گے“ یہ بھی کہا کہ ہمارے گھر میں پشاور کا اور آپ لوگوں کا اتنا ذکر ہوتا رہتاہے کہ بغیر تعارف کے میں آپ سب کو پہچان گئی تھی۔“ اب میرے چپ ہونے کی باری تھی، البتہ مجھے اس گفتگو سے وہ شاعرہ بچی یاد آگئی، میں نے اس کا پوچھا کہ وہ نظر نہیں آ رہی، معلوم ہوا کہ اس کی شادی ہو گئی ہے اور المیہ یہ ہوا کہ اس کے میاں بھی اچانک فوت ہو گئے،شادی کے فورا بعد کے اس سانحہ سے مجھے پشاور ٹی وی سے نشر ہونے والا اپنے لکھے ہوئے ڈرامے کا مکالمہ یا آ گیا۔۔”، ہم لڑکیاں تو شادی کے بعد ہی اپنے خوابوں کا محل تعمیر کرنا شروع کرتی ہیں مگر آپ کے ہاتھ سے تو پہلی اینٹ ہی گر کر ٹوٹ گئی“ میں چپ ہو گیا تھا جب اجازت لے رہے تھے تو بہو رانی نے کہا کہ مجھے اپنی کتابیں ضرور بھیجئے گا،ان لوگوں کا سارا لائف سٹائل جدید تر دور کا تھا مگر سراپا محبت اس گھرانے میں چھوٹوں بڑوں سب کے دل ستر اور اسّی کی دہائی میں دھڑک رہے تھے۔ واپس پشاور آئے تو بزم بہار ادب کے عظیم نیازی اور اختر سیماب کا فون آ یا کہ وبا کے دنوں کے طویل لاک ڈاون کے بعد اب قدرے بہتری کے آثار پیدا ہو ئے ہیں تو ایک محدود سی ادبی نشست نہ ہو جائے، میں نے تائید کی، ان دنوں میں دو ایک اکٹھ حسام حر کے گھر پر بھی ہوئے مگر وہ سلسلہ آگے نہ بڑھ سکا، جب دنیا بھر میں آن لائن نشستیں ہو رہی تھیں تو انہی کالموں میں پشاور کے احباب سے استدعا کرتا رہا،مگر ادب ہماری ترجیحات کی فہرست میں شاید اب زیادہ اوپر نہیں رہا،غنیمت ہے کہ اکادمی ادبیات پاکستان کے پشاور باب نے کچھ ”زومی مشاعرے مذاکرے“کئے جس کے لئے انہیں ڈاکٹر ضیغم حسن کا تعاون دستیاب رہا، پھر اسی ڈاکٹر ضیغم نے اپنی ادبی تنظیم تخلیق انٹر نیشنل کے تحت وٹس ایپ پر بھی ایک مشاعرے کا ڈول ڈالا۔ باقی تنظمیں منقار زیر پر ہی رہیں، اور اب کے محدود ہی سہی مگر وبا کے دنوں کے بعد پہلی بھرپور نشست کے انعقاد کا اعزاز ناز سیٹھی مرحوم کی انجمن کے حصے میں آیا، جسے عظیم نیازی پوری کمٹ منٹ سے جاری رکھے ہوئے ہیں، دیکھئے شاید اب کہیں سے کچھ اچھی خبریں ملنا شروع ہو جائیں،ویسے بھی صوفی دانشور اقبال سکندر ہر ملاقات پر دوستوں کے حوالے سے بتاتے رہتے ہیں کہ سب کو حلقہ کے تنقیدی اجلاس کا انتظار ہے۔بزم بہار ادب میں یہ بات بھی ہوئی کہ ہر چند لاک ڈاؤن کے موسم میں با قی ادبی سرگرمیاں معطل رہیں تاہم کتب اور جرائد کی اشاعت میں تعطل نہیں آیا، اور اس بات کی گواہی تو ادب سرائے کے یہ کالم بھی دیں گے کہ ہر ہفتے اطراف سے ملنے والی تازہ کتب اور اردو پشتو جرائد کا ذکر ہوتا رہتا ہے اس ہفتے بھی بلا تکان کام کرنے والے شاعر ادیب اور دانشور گل بخشالوی کی بہت ہٹ کے کہانیوں کا مجموعہ ”جو ہم پہ گزری“ ملا ہے ان کہانیوں کا طرز احساس بہت جدا گانہ ہے،ان کہسانیوں کے جیتے جاگتے کردار ہمارے آس پاس ہی سانس لیتے نظر آتے ہیں، گل بخشالوی کے سینے میں اپنے لوگوں کے دکھوں پر رنجیدہ رہنے والا اید حساس دل دھڑکتا ہے۔ یہ عمدہ مجموعہ آ پ 0302 58 92 786 پر ان سے رابطہ کر کے حاصل کر سکتے ہیں، ”آوارہ چاند“ کے نام سے ایک شعری مجموعہ جواں سال و جواں فکر شاعر مظہر جاوہد کا بھی موصول ہوا ہے۔ مردان کے رہنے والے اس تازہ کار نے اتنے قد آور اور جید شعرا کے ہوتے ہوئے میدان ادب میں قدم رکھنے کا جوا ز ’ٹیگو ر‘ کی ایک نظم کو بنایا ہے۔ ٹیگور کی نظم ہے
شام کے ڈوبتے ہوئے مغرور سورج نے سوال کیا
”کوئی ہے جو میرے بعد میری جگہ لے سکے“ ؟
مٹی کا ایک ننھا سا دیا سر اٹھا کر بولا
” میں کو شش کروں گا“
عمدہ غزلوں اور مدھر لہجے کی نظموں کا یہ مجموعہ 0344 95 72 441 پر مظہر جاوید سے بات کر کے منگوایا جاسکتا ہے، مجھے ایک مختصر مگر بہت عمدہ مکالمہ پر مشتمل ایک کتاب گورنمنٹ کالج ہنگو کے لیکچرار محمد وارث خان کی ملی ہے، یہ مکالمہ ان کیایم فل کے مقالہ کے حوالے سے ہے جو انہوں نے معروف شاعر ادیب اور تصوف، تعلیم،ادب اور سیاسی منظرنامہ پر گہری نظر رکھنے والے کالم نگار ڈاکٹر فصیح الدین سے ان کی کالم نگاری کے حوالے سے کیا ہے، تدریسی مکالمہ اور مصاحبہ نگاری کے اپنی سو طرح کی مشکلات ہو تی ہیں سب سے بڑی مشکل تو یہ ہو تی ہے کہ سوال نامہ ترتیب دے دیا جاتا ہے جس سے بہت سے ضمنی سوالات کا دم گھوٹنا پڑتا ہے، کوئی کوئی انٹرویو دینے والے ایسا صاحب کمال ہو تا ہے کہ وہ ان پوچھے سوالات کا جواب بھی دے دیتا ہے بصورت دیگر تشنگی باقی رہ جاتی ہے۔ محمد وارث کے سوالات اور ان کے عمدہ اور سیر حاصل جوابات کا ایک لطف یہ ہے کہ میں نے یہ ”مکالمہ“ ایسے ہی ورق گردانی لے لئے اٹھا یا اور تب تک واپس میز پر نہیں رکھا ڈاکٹر فصیح الدین کا اپنے والد گرامی حافظ حاجی غلام یوسف ؓ کے بارے میں مکمل نہیں پڑھ لیا۔ اس میں ڈاکٹر اسحق وردگ کی مختصر سا تاثراتی رائے بھی شامل ہے محمد وارث کے اس مقالہ کی نگران قرطبہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کی استاد ڈاکٹر تحسین بی بی ہیں۔ اور آ خر میں دوست مہرباں جادو بیاں شاعر اور معجز نگار ناول نگار وحید احمد کی طلسماتی فضا بناتی ہو ئی نظموں کا تازہ مجموعہ ” پریاں اترتی ہیں“ کے ملنے کی کالمی رسیدجس کے رومینس سے میں نے اپنی بہت سی ساعتیں گرمانا اور مہکانا ہیں۔اک نظم کے چند مصرعے محض اپنی آتش شوق کو بڑھکانے کے لئے زیر لب پڑھتا ہوں،۔چاہیں تو شریک ہو جائیں۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔ کوئی پندرہ برس پہلے کا گیلا واقعہ ہے
تھم چکی برسات کی بھیگی ہو ئی اک رات تھی
میں جب
نوشہرہ شہر میں دریائے کابل سے بندھی
ہلکورتی کشتی میں بیٹھا
اور چپو چل پڑے۔۔۔۔۔۔۔۔

younus khayyal

About Author

2 Comments

  1. یوسف خالد

    اکتوبر 2, 2020

    واہ بہت عمدہ احوال بہت عمدہ یادیں زمانے کی بدلتے رنگ اور زندگی — سب کچھ

  2. طاہرگل

    اکتوبر 2, 2020

    بہت خوبصورت ، ناسٹیلجیا کی کیفیت پیدا کر دی ابتدائیے نے۔۔۔ بہت اعلٰی صاحب

طاہرگل کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

کالم

ترقی یا پروموشن ۔۔۔۔ خوش قسمتی یا کچھ اور

  • جولائی 11, 2019
ترجمہ : حمیداللہ خٹک کون ہے جوزندگی میں ترقی نہ چاہتاہو؟ تقریباًہرفرد ترقی کی زینے پر چڑھنے کا خواب دیکھتا
کالم

کشمیرمیں انسانی حقوق کی پامالی

  • اگست 6, 2019
از : یوسف خالد کشمیر جل رہا ہے اور دنیا بے حسی کی تصویر بنی ہوئی ہے — دنیا کی