کالم

بس اس سبب سے کہ تجھ پر بہت بھروسہ تھا : ناصر علی سید

میرے ساتھ ایسا شاید پہلی بار ہوا ہے کہ میزبان سے پہلے پہنچ گیا ہوں،میں نے ابتسام سے کہا تو وہ کہنے لگا کہ چلئے ہم ان کے پہنچنے تک کچھ تصویریں بنا لیتا ہیں،لمبے گھنے درختوں اور سبز و شاداب گھاس کے قطعات سے لے کر سانس لیتے ہوئے نیلگوں پانی والے سو ئمنگ پول کے کنارے رنگا رنگ بوگن ویلیا کے پھولوں کے آس پاس ہم نے بہت تصویریں بنائیں، پھر ہم ٹیرس کی طرف چلے گئے،ابتسام کونہ صرف اچھی تصویر بناناآتی ہے بلکہ عمدہ زاویہ کی تلاش کا بھی سلیقہ ہے سو ٹیرس پر بھی مختلف اینگلز سے دلکش عکاسی کی۔ اور ٹیرس ہی سے ہمیں میزبان کی گاڑی نظر آگئی تھی، میزبان سے پہلے پہنچنے کی خوشی بس تھوڑی دیر کی تھی کیونکہ گاڑی کا دروازہ کھلا اور میزبان اپنے دو مہمانوں کے ساتھ گاڑی سے نکلے میں نے آگے بڑھ کر تینوں دوستوں کی کہنیوں سے کہنی ملائی تو سب کے چہروں پر مسکراہٹ پھیلتے دیکھ کر لانبے گھنے درختوں سے کسی پرندے کی چہکار نے مہمانوں کا استقبال کیا،ماحول بن گیا تھا،مہمان مگر بہت اچھے دوست،شاہد صدیقی اور رؤف کلاسرا تھے،بہت دنوں بعد دونوں سے ملاقات ہوئی تھی اس لئے ہم تینوں نے محبت بھری نظروں سے اپنے میزبان میجر عامر کی طرف دیکھا، جو مجھ سے پوچھ رہے تھے کہ کب پہنچے؟ میں نے کہا بس آپ سے کچھ ہی دیر پہلے۔فوراََ سمجھ گئے اور کہنے لگے میں مہمانوں کو ہنڈ کا تاریخی میوزم دکھانے لے گیا تھا، سو کہیں پہلے پہنچنے والی خوشی کی شال کاندھوں سے سرک گئی،مرحوم طہ خان مجھے بجا طورایک قطعہ میں خوگر ِ تاخیر کہتے ہوئے ”بندہ ئ تاخیر“ قرار دے چکے ہیں۔ سوئمنگ پول کنارے نشست کا اہتمام کیا گیا تھا،مگر روف کلاسرا اور شاہد صدیقی کو ٹیرس پسند آیا اس لئے وہیں ڈیرہ جما دیا گیا، اور پھر پھل اور چائے بھی وہیں منگوا لی گئی،عصر بہت آہستگی سے آگے بڑھ رہی تھی، ہنڈ میوزیم دیکھنے کی بات چلی تو روف کلاسرا نے بڑے دکھ سے کہا کہ میوزیم کے باہرجس کچرے اور تعفن کی حکمرانی ہے اس کی وجہ سے ماضی کے حکمرانوں کی تاریخ دیکھنے کے لئے جانے والوں کو سو مرتبہ سوچنا پڑتا ہے۔ اور کون جانے کہ کتنے ہی اس کچرے کو دیکھ کر باہر ہی سے پلٹ گئے ہوں، میں بہت پہلے جب ایک میوزک شو کی میزبانی کے لئے گیا تھا تو صورت حال ایسی نہ تھی اور اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس وقت کے وزیر ثقافت سید عاقل شاہ بھی ہمراہ تھے۔ ہم تینوں تو کرسیوں پر بیٹھے تھے مگر شاہد صدیقی ٹیرس پر پڑی ایک چارپائی پر نیم دراز لیٹ کر آسمان کو دیکھنے لگے مجھے داغستان کے رسول حمزہ توف یا آگئے جس نے کہا ہے کہ ” جب کوئی شاعر
(تخلیق کار) اپنی چھت پر (چارپائی پر) لیٹ کر آسمان کو دیکھ رہا ہوتا ہے تو وہ کام کر رہا ہوتا ہے“ ابتسام نے مختلف زاویوں سے تصاویر بنائیں تو دیہی حسن کا دلدادہ روف کلاسرا کہنے لگے نوجوان ان لمحوں کو کیمرے میں محفوظ کرنا ضروری ہے،پھر ابتسام اور قاری حمید اللہ جان نے تصویریں بنائیں۔ابتسام نے خصوصی طور پر روف کلاسرا کا تو کسی پروفشنل فوٹو گرافر کی طرح فوٹو سیشن کر ڈالا۔ بعض تصویریں دیکھ کر دوستوں نے بڑے خوشگوار تبصرے بھی کئے، اب آسمان کے کنارے شنگرفی ہو رہے تھے، چائے کی طلب پھر سے ہونے لگی تو پھر سے چائے منگوائی گئی، میں نے کسی کا شعر پڑھا ”میں نے دیکھا ہے شام کا منظر“ میجر عامر کو شہر کی شاموں اور گاؤں کے صبحوں کے حوالے سے میرا شعر یاد آ گیا شام ہی کے حوالے سے،میرا ہی ایک اور شعر بھی دوستوں تک پہنچا
وہ شفق ہو کہ سمندر کہ مرا دل ناصرؔ
؎ شام ہوتی ہے تو ہر چیز لہو روتی ہے
اتفاق سے اس شام ٹیرس پر موجودہم چاروں دوست گاؤں میں گزارے ہوئے دلچسپ شب و روز،،زندگی کے میلے میں بچھڑے ہوئے کچھ مہربان چہروں اوربیتے ہوئے لمحوں کی یادوں کے رومینس میں ہمہ وقت شرابور رہنے والے تھے۔ شعروں کی بات چلی تو میجر عامر کو اپنے استاد محترم کی یاد آئی تو ان کی غزل کا مقطع پڑھا
فراز بھول چکا ہے ترے فراق کے دکھ
کہ شاعروں میں تن آسانیاں تو ہو تی ہیں
بار بار یہ شعر پڑھا گیا پھر شاہد صدیقی سنبھل کر بیٹھ گئے اور کہنے لگا اس غزل کا یہ شعر دیکھیں جو مجھے بہت پسند ہے
بس اس سبب سے کہ تجھ پر بہت بھروسہ تھا
گلے نہ ہوں بھی تو حیرانیاں تو ہو تی ہیں
شاہد صدیقی کو بھی میجر عامر کی طرح بہت شعر ازبر ہیں،جن دنوں وہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے ان دنوں رحمن بابا سیمینار کے لئے وہ پشاور آئے تھے سیمینار شام کو تھا مگر وہ صبح ہی آگئے تھے کہ ان کی پشاور دفتر میں کچھ اور مصروفیات بھی تھیں جن سے فارغ ہوتے ہی انہوں نے مجھے فون کیا کہ آجاؤ لنچ اکٹھا کریں گے، لنچ کے بعد حیات آباد جاتے ہوئے گاڑی میں ہماری شعروسخن کی محفل جمی، مجھے یاد ہے کہ معراج فیض آبادی کے ایک شعر نے ہمیں بہت تنگ کیا تھا پہلا مصرع ہم دونوں کے ذہن سے نکل گیا تھا،پھر اور باتیں اور شعر چلتے رہے،جس وقت ہم اوپن یونیورسٹی کے پشاور دفتر پہنچے تو اچانک پہلا مصرع یاد آگیا اور پہلے لفظ کے ساتھ ہی ہم دونوں نے بیک آواز مصرع پڑھا اور شعر مکمل کیا .
مجھ کو تھکنے نہیں دیتا یہ ضرورت کا پہاڑ
میرے بچے مجھے بوڑھا نہیں ہونے دیتے
اس شام بھی فراز کے مقطع کا پہلا مصرع چند لمحوں کے لئے گرفت میں نہیں آیا تھا مگر زیادہ تنگ نہیں کیا۔ فراز کے حوالے سے بات ہوئی تو ہم سب متفق تھے کہ آخر آخر تک یعنی آخری شعر تک فراز کی ہاں تازگی برقرار رہی۔ وہ کبھی تھکے ہوئے نہیں لگے۔ اس یار طرحدار کا ذکرچل رہا تھا،سورج درختوں پیچھے غروب ہو چکا تھا درختوں کے پتے نارنجی ہو رہے تھے،پنج پیر کی طلسماتی شام کا جادو پر پھیلانے لگا تھا مجھے فراز کا شعر یاد آیا
وداعِ یار  کا منظر  فرازؔ  یا د  نہیں
بس ایک ڈوبتا سورج مری نظر میں رہا
جسے میں دوستوں سے شئیر کرنے ہی والا تھا کہ سارے میں اذان کی پر شوکت آواز گونج اٹھی۔ ٹیرس پر ہی نماز مغرب پڑھی گئی، میجر عامرکے چہرے پر دوستوں کی موجودگی سے کھلنے والی خوشی ہمیشہ دیدنی ہو تی ہے، گفتگو میں بھی شریک ہوتے ہیں مگرمیز کو ماکولات سے خالی بھی نہیں ہونے دیتے،اے پیٹائزر کے طور گرم گرم سیخ تکا آئے اتنے میں جمیل مرغز بھی آگئے،بہت دیر سے ان کا انتظار تھا۔ مگر وہ گزشتہ دنوں کچھ علیل رہے ہیں،جس کے اثرات ان کی رفتار پر تو کسی حد تک نظر آئے مگر گفتار، خوش مزاجی اور چہرے کی بشاشت پر بیماری قطعاََ اثر انداز نہیں ہوئی تھی۔ انہوں آتے ہی شاہد صدیقی کے شائع ہونے والے تین مسلسل کالموں ”شکیل عادل زادہ اور سب رنگ کا دوسرا جنم“ (اب چار) کے ممدوح شکیل عادل زادہ کا ذکر چھیڑدیا۔شکیل عادل زادہ اور سب رنگ ڈائجسٹ کے ساتھ ہمارا رومینس بھی ڈھکا چھپا نہیں ہے ادب سرائے میں بارہا ان کا، سب رنگ کا اور ابن صفی کا ذکر ہوتا رہا ہے لیکن مجھے شاہد صدیقی کے کالم سے معلوم ہوا کہ میجر عامر بھی سب رنگ کے فین کلب میں شامل ہیں،۔یہ بات زیادہ آگے نہیں بڑھ سکی کہ اب میجر عامر کے بنگلے کی روشنیاں جل اٹھیں تھیں اور ہمیں ٹیرس سے سوئمنگ پول کے کنارے جانا تھا۔ وہیں جمیل مرغز کو روف کلاسرا اور شاہد صدیقی نے ماضی کے اوراق پلٹنے پر اکسایا،ہر چند میجر عامر کو ان سے زیادہ ان کے بارے میں یاد تھا،جمیل مرغز ایک نظریاتی قلم کار ہیں اور انہوں نے ایک بھر پور زندگی گزاری ہے،ان سے پورا مکالمہ نہیں ہو سکا ایک تو عشائیہ تیار تھا جسے میں شہنشائیہ کہتا ہوں اور پھر بہت دیر بھی ہو گئی تھی دیر کا احساس ایک فون نے دلایا۔نہ چاہتے ہوئے بھی نشست ختم کرنا پڑی۔مجھے پنج پیر سے پشاور پہنچتے پہنچتے نصف شب ہو چکی تھی۔
اس ہفتے ملنے والی کچھ کتب و جرائد میں کوہاٹ سے محمد جان عاطف کا نعتیہ مجموعہ فیضان مصطفےٰ، فیروز آفریدی کے پشتو افسانوں کا مجموعہ ” د صحرا بادونہ“ فیروز خان آفریدی ہی کا اردو ناول ”بگڑا“ رحیم خان مجروح کا شعری مجموعہ ”تگی ساسکی“’(پیاسی بوندیں) حمیرا ظفر کا شعری مجموعہ ”میں اور میرا ہمدم“ اور ڈاکٹر نور حکیم جیلانی کی ادارت میں شائع ہونے والا دینی و ادبی مجلہ ”الاسلام،پشاور“ شامل ہیں۔

 

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

کالم

ترقی یا پروموشن ۔۔۔۔ خوش قسمتی یا کچھ اور

  • جولائی 11, 2019
ترجمہ : حمیداللہ خٹک کون ہے جوزندگی میں ترقی نہ چاہتاہو؟ تقریباًہرفرد ترقی کی زینے پر چڑھنے کا خواب دیکھتا
کالم

کشمیرمیں انسانی حقوق کی پامالی

  • اگست 6, 2019
از : یوسف خالد کشمیر جل رہا ہے اور دنیا بے حسی کی تصویر بنی ہوئی ہے — دنیا کی