کالم

آدھا سچ : یونس خیال

دنیا میں ازل سے یہی دستور رہا ہے کہ یہاں ہرشخص اپنے حصے کا سچ (جوکبھی پورانہیں ہوتا) ہتھیلی پر لیے اسے پوراثابت کرنے کےلیےکوشاں ہے ۔اس ادھورے پن کی تکمیلیت کے لیے وہ اُن دوسری ہتھیلیوں کامحتاج ہوتاہے جن پر اس کی اپنے ہاتھ جیسی کوئی تحریرموجود ہو۔اور اگر کسی معاشرے کی اکثریت کے پاس اس طرزکی علامت مل جائے تو وہ آدھا سچ اس قوم یا معاشرے کا پوراسچ قرارپاتا ہے ۔ایسے میں پھر مختلف تحریروں والی ہتھیلیوں کو دوسروں کا جھوٹ قرار دیاجاتاہے ۔شاید اسی چلن کے باعث ہماری سوچ میں توازن ( برداشت اور عدم برداشت کی فضا)قائم رہتاہے۔اسی حوالے سے دنیامختلف بلاکوں اور ’’ اِزموں ‘‘میں تقسیم ہوتی ہے۔ہاں جن کےپاس پوراسچ موجود ہوتا ہے یا جو اُسے پانے کی مسافت کو نکلتے ہیں وہ صرف پیغمبراوراللہ کے برگزیدہ لوگ ہوتے ہیں۔
حالاتِ حاضرہ پرنظرڈالی جائے توآج کل یہی فضاہمیںاپنے اِردگرد نظرآتی ہے۔کارونا کی وبا نے پوری دنیا کو ہِلاکررکھ دیاہے اور اشخاص سے لے کر اقوام تک، سب اپنے اپنے حصے کاسچ سرپراُٹھائے اس کی تکمیلیت کے دعووںمیں مشغول ہیں۔ خطرہ یہ ہے کہ اپنی کاملیت کے اظہاراوردوسروں کےنامکمل سچ کو پوراجھوٹ قراردینے کے عمل میں کوئی ایساواقعہ نہ ہوجائےجس کا ازالہ بعد میں سب کے سچ کو ملاکربھی نہ کیاجاسکے اورمعاشی تباہی کے دھانے پر کھڑی دنیاایک بارپھر بارُوداورخون کی بُوکی لپیٹ میں آجائے۔اگرایساہواتواب یہ زمین شاید ہی اس کے اثرات برداشت کرپائے۔
کوروناکی پھیلائی ہوئی تباہی کے بعد بڑی عالمی طاقتوں کاسب سے بڑامسئلہ معاشی سطح پر عوام کے سامنے اپنی ساکھ کی بحالی ہوگا۔اس کے لیے ابھی سے رائے عامہ کوہموارکیاجارہا ہے۔کوروناکوقدرتی وبائی مرض اور ’’ مین میڈ ‘‘سازش قراردینے کی بحث کاآغازہوچکاہے۔ان حالات میں نئے نئےنکات اُٹھائے جا رہےہیں اور عالمی طاقت کے مراکز اپنے اپنے کارڈ لیےجس کھیل کاآغازکرتے نظر آرہےہیںاس کا انجام تباہی کے سواکچھ اور نظر نہیں آتا۔’’ معاشی جنگ ‘‘ جیتنے کے لیے بارُود کا استعمال کیا جانااخلاقی گراوٹ میں گھرے معاشروں میں کوئی انہونی بات ہے بھی نہیں ۔ جنگوں کی تاریخ گواہ ہے کہ طاقت کو منوانے کےلیے اصول اور ضابطے سب بے معنی ہوتے ہیں ۔
بھوک اورغربت میں پسی انسانیت کو زندہ رکھنے کے لیے عالمی طاقتوں کو سچ کی تلاش میں اپنی ہتھیلیوں پرایسی تحریریں لکھناہوں گی جن میں یکسانیت ہواوران سے’’ انسانیت کی بقا‘‘ کے مفاہیم نکل سکیں ۔یہی وقت کا تقاضاہے۔
اس حوالے سے یہاں ’’ خوف ‘‘ کے عنوان سے مجھے اپنی ایک نظم یاد آرہی ہے:
شہرکی دیوارپر
لکھے گئے

پھرنئی ترتیب سے
کالے حروف
اس سے پہلے بھی
نہ جانے
اس طرح کی کالی تحریروں کوپڑھ کر
کتنے انسانوں سے
بینائی چھِنی ہے
اب بھی
ایسے ہی کئی خدشوں کی چیخیں
مِرے اندر
سنائی دے رہی ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (یونس خیال)
۲؍مئی ۲۰۲۰؁ء

younus khayyal

About Author

1 Comment

  1. Ijaz Haider

    مئی 2, 2020

    حالات حاضرہ کی سختی خدشات سے بھرپور حالات آئندہ کی خوفناک تصویر پیش کرتی ہوئی نثر اور نظم بہت عمدہ ڈاکٹر صاحب

Ijaz Haider کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

کالم

ترقی یا پروموشن ۔۔۔۔ خوش قسمتی یا کچھ اور

  • جولائی 11, 2019
ترجمہ : حمیداللہ خٹک کون ہے جوزندگی میں ترقی نہ چاہتاہو؟ تقریباًہرفرد ترقی کی زینے پر چڑھنے کا خواب دیکھتا
کالم

کشمیرمیں انسانی حقوق کی پامالی

  • اگست 6, 2019
از : یوسف خالد کشمیر جل رہا ہے اور دنیا بے حسی کی تصویر بنی ہوئی ہے — دنیا کی