کالم

کوئی اس شہرِپشاورسے جُداکیسے ہو : ناصر علی سیّد

کوئی اس شہر ِ پشاور سے جدا کیسے ہو
پشاور سے اسلام آباد کے لئے روانہ تو ہو چکا تھا مگر ایک دھڑکا سا لگا ہوا تھا کہ کسی بھی لمحہ شاعرہ دوست عائشہ مسعود ملک کا فون یا میسج آئے گا کہ مشاعرہ ملتوی ہو گیا ہے اس لئے آپ اسلام آباد نہ آئیں، ہر چند غیر یقینی صورت حال اور اسلام آباد تو لازم و ملزوم گردانے جاتے ہیں لیکن اس دن یہ غیر یقینی صورت حال اس لئے بھی زیادہ گھمبیرہو چکی تھی کہ اس میں خوف کی ایک زیریں لہر بھی شامل ہو گئی تھی، کچھ شاہرائیں دھرنا دینے والوں کے قبضہ ئ قدرت میں تھیں جبکہ کچھ پر انتظامیہ نے رکاوٹیں کھڑی کر رکھی تھیں، ایسے میں اسلام آباد کے لئے گھر سے نکلنے سے پہلے مجھے دسیوں بار سوچنا پڑا تھا،مگر جانا ناگزیر تھا کہ کئی ہفتہ پہلی کی کمٹ منٹ تھی،سوشل میڈیا پر پوسٹ کئے ہوئے فلائیرز میں نام کے ساتھ تصویر بھی نمایاں تھی اور پھر یہ دعوت بلا کی محبتی دوست عائشہ مسعود ملک کی طرف سے تھی سو حاضری ضروری تھی، عائشہ ملک سے جب بھی ملاقات ہوتی ہے مجھے نیویارک کے جیکسن ہائیٹس میں ممتاز شاعر و ادیب و تجزیہ کارجوہر میرکے اپارٹمنٹ میں لگ بھگ کوئی 22 برس پہلے کے اکتوبر کی ایک بھیگی بھاگی سے رات یاد آ جاتی ہے جب نیو یارک کی کھلنڈری بارش اپارٹمنٹ کی کھڑکیوں کے شیشوں پرمسلسل دستکیں دے رہی تھی جس سے شیشوں پر مزے مزے کی شبیہیں بنتی بگڑتی جارہی تھیں اور اندر لاؤنج میں جوہر میرسمیت ہم دس بارہ شاعر ادیب راگ مالکونس کے سحر میں کھوئے ہوئے تھے جو مرحوم دوست اور بے پناہ گائیک مسعود ملک نے چھیڑ رکھا تھا، وہی مسعود ملک جس کی پی ٹی وی کے اکلوتے چینل کے لئے گائی ہوئی غزل ”ہم تم ہوں گے بادل ہو گا۔رقص میں سارا جنگل ہو گا“ نے ہر شخص کو دیوانہ بنا رکھا تھا۔ مگر اس شب اس نے بھیرویں ٹھاٹھ کا راگ مالکونس چھیڑ رکھا تھا
پیار نہیں ہے سْر سے جس کو
وہ مورکھ ا نسان نہیں
اسلام آباد جاتے ہوئے بھی مجھے اکتوبر کی وہ شام آئی اور یہ بھی محض اتفاق تھا کہ 22 برس بعدہی سہی مگر یہ بھی اکتوبر ہی کی شام تھی جب عائشہ مسعود ملک نے ”روز نیوزٹی وی چینل“ اور فیکٹ فورم کی طرف سے بیاد علامہ اقبال ایک کل پاکستان مشاعرہ کا اہتمام کر رکھا تھا، اسلام آباد کے دوستوں کے کہنے پر میں ایک زمانے کے بعد موٹر وے کی بجائے جی ٹی روڈ سے جا رہا تھا، ابھی میں کامرہ کے پاس تھا کہ پہلے عائشہ ملک کا اور پھر فیکٹ فورم کے ساجد منظور کی کال آئی اور بتایا کہ ہمیں کونسا راؤٹ اختیار کرناہے تا کہ مشاعرہ گاہ تک آرام سے پہنچ جائیں، اس کا فائدہ ہوا اور ہم بغیر کسی رکاوٹ کا سامنا کئے وقت سے پہلے پہنچ گئے کیونکہ ابھی عائشہ جی مشاعرہ کے سیٹ کو سجانے سنوارنے کی ہدایات دے رہی تھیں فیکٹ فورم کے شاعر دوست ساجد منظور مہمانوں کے ساتھ ساتھ رہے، اسلام آباد سے طارق نعیم جلد آ گئے تھے بہت دنوں بعد ان سے ملاقات ہوئی بہت سی باتیں اکٹھی ہو گئیں تھیں سو بہت اچھی نشست رہی،میں اکثر کہتا ہوں کہ ادبی اجلاس کا بڑا فائدہ یہی ہوتا ہے کہ احباب سے ملاقات ہو جاتی ہے، اور جب لاہور سے دوست عزیز ڈاکٹر یونس خیال بھی آ گئے تو سمجھو مشاعرہ ہو ہی گیا قدرے تاخیر سے شروع ہونے والے مشاعرے میں شریک ہونے والے دوستوں میں حسن عباس رضا،عابدہ تقی، صابر محبوب،شمسہ نورین،سبین یونس،ساجد منظور،طارق نعیم،ڈاکٹر یونس خیال اور مشاعرہ کے مہمان خصوصی عمدہ شاعر طلعت منیر بھی شامل تھے، مشاعرہ کی عمدہ نظامت عائشہ مسعود ملک نے کی اور ان کی بہت محبت کہ علامہ اقبال کی یاد میں ہونے والے اس یادگار مشاعرہ کی صدارت کا اعزاز مجھ خاکسار کو بخشا گیا۔ یہ ایک طرح سے دو مشاعرے تھے کہ پہلے دوستوں نے حضرت علامہ اقبالؓ کی زمینوں میں غزلیں کہیں اور منظوم خراج عقیدت پیش کیا اور اس کے بعد اپنی نظمیں غزلیں پیش کیں، سامعین بہت ہی باذوق تھے سو احباب کو شعر سنانے کا بہت لطف آیا۔ یہ مشاعرہ نہ صرف روز نیوز چینل سے نشر بھی ہوا، بلکہ ساجد منظور کی بہت عمدہ بنائی ہوئی بھرپور رپورٹ کی صورت پی ٹی وی چینلز سے بھی ٹیلی کاسٹ بھی ہوا، اور اب اسے یو ٹیوب پر دیکھا بھی جا سکتا ہے، اکتوبر کا نصف آخر اور نومبر کا پہلا ہفتہ ادبی سرگرمیوں کے لحاظ سے بہت مصروف گزرا لاہور،پشاور اور اسلام آباد میں کئی ایک تقریبات ہوئیں اور اب تک یہ سلسلہ جاری ہے،اسلام آباد ہی میں اکادمی ادبیات پاکستان کی ایک بڑی اور معتبر تقریب ”ہال آف فیم“ کا افتتاحی اکٹھ بھی تھا جس کے لئے چئیر مین ڈاکٹر یوسف خشک نے پاکستان بھر سے چنیدہ اہل قلم کو مدعو کر رکھا تھا سیکورٹی کے آداب اور تقاضے بھی آڑے آرہے تھے کیونکہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے ہال کا ٖ افتتاح کرنا تھا۔ ممکن ہے مقامی دوستوں کو تقریب میں شمولیت کے حوالے سے کچھ تحفظات ہوں مگریہ طے ہے کہ پاکستان بھر سے آئے ہوئے اہل قلم کی مہمان نوازی کے حوالے سے ڈاکٹر یوسف خشک اور اختر رضا سلیمی اور امیر نواز سولنگی کی قیادت میں ان کی ساری ٹیم نے بہت اچھے انتظامات کر رکھے تھے، اور مہمانوں کا بہت خیال رکھا۔میں جانتا ہوں کہ کہ یہ ایک جان جوکھم کا کام ہے اور بہت احتیاط کے باوجود کہیں نہ کہیں کوئی ایسی بات ہو جاتی ہے جس سے دوست ناراض ہو جاتے ہیں اور ان کی ناراضی کو اس لئے بھی پر لگ جاتے ہیں کہ سب لکھنے والے ہیں، مگر مہمانوں میں سے اب کے کوئی شکوہ کناں نظر نہیں آیا۔ اکادمی کی طرف سے افتتاح تقریب والے دن کی شام پاکستانی زبانوں کا مشاعرہ بھی رکھا گیا جس کی نظامت دوست عزیز محبوب ظفر،عنبرین حسب عنبر اور نصیر مرزا نے انجام دئیے، اور کئی گھنٹوں پر محیط اس مشاعرہ پر اپنی گرفت مضبوط رکھی۔ ایک بڑے شو کے لئے کئی ہفتوں سے مسلسل کام کرنے کی ساری تھکن کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ذمہ دار اور باذوق چئیر مین اکادمی ادبیات ڈاکٹر یوسف خشک آخرتک مشاعرہ میں موجود رہے، ایسا کم کم دیکھنے میں آتا ہے اداروں کے سربراہان اس تھکن کا بہانہ کر کے مشاعرہ میں شریک نہیں ہوتے یا پھر کچھ دیر بیٹھ کر چلے جاتے ہیں،مجھے یہ خوشی بھی تھی کہ اس تقریب اور مشاعرہ میں ان جانے پہچانے شعرا اور ادبا کی پوری ایک کھیپ موجود تھی جو اپنے اپنے شعبہ میں ایک نام اور مقام رکھتے ہیں کئی کئی کتب کے مصنفین ہیں مگر اکادمی ادبیات کی کسی بھی تقریب میں ان کی یہ پہلی پہلی شرکت تھی چنانچہ خیبر پختونخوا کے کوہاٹ ڈی آئی خان اور اکوڑہ خٹک سے لے کر اورکزئی جیسے دور دراز علاقہ سے دوست شامل ہوئے، دو دن خوب رونق میلہ لگا رہا جس کے بعد اب تک سوشل میڈیا پر بلا شبہ سینکڑوں بلکہ ہزاروں تصاویرکی زبانی اکادمی کی بڑی تقریب اور مشاعرہ لاکھوں لوگوں تک پہنچا۔ پشاور میں تقریبات کا سلسلہ جاری ہے اکادمی کی دو بڑی اچھی تقریبات ” اہل قلم سے ملئے “ کی ذیل میں شاعر و ادیب ڈاکٹر تاج الدین تاجور اور صوفی دانشور اقبال سکندر کے اعزاز میں ہوئیں، اور اباسین آرٹس کونسل نے امریکہ میں مقیم پشاور کے اردو اور انگریزی زبان کے محقق، ادیب،کالم نگار اور دانشور ڈاکٹر سید امجد حسین کی تازہ تصنیف ”ہسدے وسدے لوگ“ کی تقریب رونمائی اور پزیرائی کا ڈول ڈالا جس کی صدارت کے لئے ممتاز انگلش شاعر و دانشور اور سابقی چیف سیکریٹری اعجاز رحیم اسلام آباد سے آئے، مہمان خصوصی اردو پشتو اور انگریزی زبان کے شاعر،وائس چانسلر گندھارا میڈیکل یونیورسٹی پشاور ڈاکٹر اعجاز حسن خٹک تھے اور نظامت ڈاکٹر نذیر تبسم کی تھی، میں نے کچھ یوں اظہار خیال کیا۔یہ ایک بہت مشکل اور ادق مشق ہے کہ آپ لفظوں سے متحرک تصویریں بنائیں اور پھر ان چلتی پھرتی نظر آنے والی تصویروں میں ایک خاص اٹکل سے مجلسی زندگی کے وہ رنگ بھریں جو بیک وقت دل اور آؔنکھوں کو اپنی گرفت میں لے لیں اور ان تصویروں سے ابھرنے والے خد و خال سے وہ کردار سامنے آئیں جن سے دل و جان کئی رشتے استوار ہوں یا رہے ہوں یوں بھی اپنے ساتھ رہنے والوں کے بارے میں لکھنے کے سو سو بکھیڑے ہوتے ہیں کیونکہ ایسے کرداروں کی بات کرتے ہوئے مسلسل یہ احساس بھی دامنگیر رہتا ہے کہ کہیں کسی حرف سے محبتوں کے بے داغ شیشے میں بال نہ آجائے،مگر دوسری طرف قلم کے قرض چکانے کا تقاضے یہ ہو تے ہیں کہآپ نے ایک امانت اپنے ساتھ رہنے والوں اور اپنے بعد آنے والوں کو پوری دیا نت داری سے سونپنی ہوتی ہے، گویا یہ رسے پر چلنے کا سفر ہے ذرا احتیاط کی چھتری پر گرفت ڈھیلی ہوئی اور سفر تمام شد، تنویر سپرا نیاس کیفیت کی ایک بہت عمدہ تصویر کچھ یوں بنائی ہے کہ
اظہار کا دباؤ بڑا ہی شدید تھا
الفاظ روکتے ہی میرے ہونٹ پھٹ گئے
میں جب ڈاکٹر امجد حسین کے خاکوں کے مجموعہ ”ہسدے وسدے لوگ“ کے ساتھ رہ رہا تھا تو مجھے ڈاکٹر امجدحسین کے کمال فن کا قائل ہونے میں ذرا بھی دیر نہ لگی کیونکہ خاکہ نگاری کوئی سہل کام نہیں ہے اس میں نہ تو کسی سوانح حیات لکھنا مقصود ہو تا ہے اور نہ ہی کسی کا کوئی لمبا چوڑاقصیدہ تحریر کرنا ہوتا ہے یہ محض کسی بھی پسندیدہ شخصیت کی زندگی برتنے کی جھلکیوں پر مبنی وہ تصویر ہوتی ہے جسے سٹروکس کی مدد سے بنایا جاتا ہے مختصر لکھنا کتنا مشکل کام ہے اس کا اندازہ اچھے خاکے پڑھ کر آسانی سے ہو جاتے ہے یہ غیر افسانوی صنف ہونے کے باوجود شعر اور افسانہ کی طرح کا ایک ایسا تخلیقی کام ہے جس میں اشاروں کنایوں سے کام لیا جاتا ہے،ڈاکٹر امجد حسین نے ان خاکوں میں قلم کو کہیں من مانی نہیں کرنے دی صرف اْتنی بات لکھنے کی اجازت دی جتنی ضروری تھی، ااس لئے ان کا قلم کہیں بھی ”من شاہ ِ جہانم“ کا نعرہ لگاتا نظر نہیں آتا۔ اور جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ ہنر آتے آتے ہی آتا ہے،مانو خاکہ نگاری رابرٹ لوئیس سٹیونسن کی فرام ریلوے کیرج نامی نظم کی وہ مصرعے ہیں جس میں ٹرین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ پلک جبپکتے میں رنگین سٹیشنوں سے سیٹی بجاتی ہوئی نکل جاتی ہے۔ ڈاکٹر امجد حسین کے لکھے ہوئے خاکوں کے اس مجموعہ میں پچاس خاکے ہیں، اور پچاسواں خاکہ سب سے طویل ہے جو کم و بیش ایک سو چھیانوے صفحات پر محیط ہے، ڈاکٹر امجد حسین طرز تحریر بلا کا دلنشین ہے اور بہت کم تحریریں قاری سے خود کو پڑھوانے کے فن پر دسترس رکھتی ہیں ایسی ہی جادوئی تحریروں میں ہسدے وسدے لوگ کے خاکے بھی ہیں، ڈاکٹر امجد نے ماضی میں کچھ وقت افسانے کی گلی میں بھی گزارا ہے اور اس کے در و دیوار اب اس کو ہانٹ کرتے ہیں اس لئے ان کے بہت سے خاکوں کو ایک عمدہ افسانمے کے طور پر بھی پڑھا اور پرکھا جا سکتا ہے
بطور خاص مجھے تو جانی گلا اور میکڈا نلڈ ہربرٹ شاہ کی آخری سطروں نے اسی طرح چپ کرا دیا ہے جس طرح کرشن چندر،اہ ہنری اور موپسان کے کئی افسانوں کے اختتام پر میں چپ ہو جاتا ہوں۔میں جب گلزار کے کچھ افسانے اور بہت فلموں کے کرداروں اور بطور خاص موسم کے کرداروں سے اپنے میں بات چیت کرتے ہوئے اس الجھن کا شکار رہتا ہوں کہ ان میں کس کردار کو مورد الزام ٹھہرا کر اس کے خلاف ہو جاؤں اور کس سے ہمدردی کرتے ہوئے اس کا طرفدار ہو جاؤں اسی طرح ان خاکوں کے کچھ کرداروں کے حوالے سے بھی میں سوچتا ہوں کہ ان کی بظاہر منفی حرکتوں کو نظر انداز کروں ان سے نفرت کروں ان پر ترس کھاؤں یا پھر یہ سوچ کر بلا تبصرہ رہنے دوں کہ ان کو قدرت کی طرف سے شاید یہی کردار ادا کرنے کے لئے بھیجا گیا، اس مجموعہ میں جن خاکوں کی بات ڈاکٹر امجد نے اپنی بات میں کی یعنی رہٹ اور فٹ بال ان خاکوں نے عجب لطف دیا اور ایک طرح سے کاکا نگاری کی صنف میں کاسم کرنے والوں کو ایک نئی اور عمدہ راہ سجھائی،قلم قبیلہ کی جن شخصیات پر انہوں نے لکھا بہت کمال ہے خصوصا عابد علی سید اور گرو جی ستیہ پال آنند کے خاکے بہت دلچسپ ہیں،، آخری بات مجھے ساری خاکوں نے دیر دیر تک اپنی گرفت میں رکھا اور ایسے خاکوں میں ”فقیر کی ماں“ سر فہرست ہے کیوں کہ یہ میرے دل کو کہیں بہت اندر سے چھونے والا تیسرا خاکہ ہے پہلے دو خاکے رشید احمد صدیقی کا کندن اور مولوی عبدالحق کا نام دیو مالی ہے، اور ہاں اس کتاب میں محض انچاس خاکے ہیں میں نے پچاسویں طویل خاکے کی بات کی تو وہ پشاور کا خاکہ ہے جو الگ سے نہیں بلکہ پہلیخاکے سے آخری خاکہ تک ہر خاکے کی سطروں میں سے سر اٹھ اٹھا کر اپنے خال و خد ابھارتا ہے اور کہتا ہے۔۔میں پشاور ہوں اور ڈاکٹر سید امجد حسن بہانے بہانے میرا خاکہ ہی لکھنا چاہ رہا تھا۔ خدا رکھے پشاور کو پشاور پھر پشاور ہے۔میں نے بھی کہا ہوا ہے کہ
راستے رزق کشادہ کے بہت ہیں ناصر
کوئی اس شہر ِ پشاور سے جدا کیسے ہو

(بشکریہ : روزنامہ آج)

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

کالم

ترقی یا پروموشن ۔۔۔۔ خوش قسمتی یا کچھ اور

  • جولائی 11, 2019
ترجمہ : حمیداللہ خٹک کون ہے جوزندگی میں ترقی نہ چاہتاہو؟ تقریباًہرفرد ترقی کی زینے پر چڑھنے کا خواب دیکھتا
کالم

کشمیرمیں انسانی حقوق کی پامالی

  • اگست 6, 2019
از : یوسف خالد کشمیر جل رہا ہے اور دنیا بے حسی کی تصویر بنی ہوئی ہے — دنیا کی